جلاب کے معنی
جلاب کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ جُل + لاب }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اور ایک امکان یہ بھی ہے کہ فارسی اسم |گلاب| سے ماخوذ ہے اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٩١ء میں جانم کے "رسالہ وجودیہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["دست آور دوا","دست آور دوائی","دینا لینا کے ساتھ","فارسی لفظ گلاب کا معرب ہے","گدلا پانی","گلِ آب کا معرب","وہ جو پھر کر بیچے","وہ جو غلاموں یا مویشی بیچتا پھرے"]
جلب جُلاّب
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : جُلاّبوں[جُل + لا + بوں (واؤ مجہول)]
جلاب کے معنی
"آج جلاب لیا جس سے آرام ہوا۔" (١٩١٧ء، خطوط خواجہ حسن نظامی، ٣٤:١)
دست آتے ہیں اگر مج کو تو اس کا غم نہیں یعنی بد ہضمی مری جلاب سے کچھ کم نہیں (١٨٣٢ء، چرکین، دیوان، ٤١)
"عرف اطبا میں جلاب سے شربت گلاب ہی مقصود ہوتا ہے۔" (١٩٢٦ء، خزائن الادویہ، ٢٦٨:٣)
جلاب کے مترادف
مسہل
بٹوا, تھیلی, سہل, مُسہل, نیام
جلاب english meaning
mixture of syrup and rose-water; a sherbet of sugar and rose-water; a purgative(come) unexpectedlyA purativea purgeall of a suddenhanger-onjulepparasite (of)purgativewith a thud
شاعری
- دست آتے ہیں اگر مج کو تو اس کا غم نہیں
یعنی بد ہضمی مری جلاب سے کچھ کم نہیں - مگر شبنم کا مے ہے یا ادھر جلاب کا پیالا
یو بی خوب ہور اوبی خوب تج سوں مل پون سارا - جو جلاب چک و سٹیا قہر تے
زمیں سب ہری ہورہی زہر تے - تب فرقت کا علاج اور ہے جانے دے طبیب
کس سے اے یار پئے جائیں گے جلاب کے گھونٹ - بہکے جو ہم مست آ گئے سو بار مسجد سے اٹھا
واعظ کو مارے خوف کے کل لگ گیا جلاب سا
محاورات
- جلاب سا لگ جانا