ختم کے معنی

ختم کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ خَتْم }

تفصیلات

iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم مشتق ہے۔ اردو میں اصل حالت اور اصل معنی کے ساتھ مستعمل ہے۔ ١٦٣٥ء، کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ختم کرنے والا","قرآن شریف ختم ہونے کی رسم","قرآن شریف کے پورے پڑھے جانے کی رسم","قرآن شریف کے تمام ہونے کی رسم","قرآن مجید کے مکمل ہونے کی رسم","نذر و نیاز","کسی اسم یا آیت کو تعداد معینہ کے مطابق پڑھنا یا پڑھوانا"]

ختم خَتْم

اسم

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )

اقسام اسم

  • جمع غیر ندائی : خَتْموں[خَت + موں (و مجہول)]

ختم کے معنی

١ - مہر، کسی چیز کو سر بند کرنے کا عمل یعنی اس طرح بند کرنا کہ سر بمہر کرنے کے بعد نہ باہر سے کوئی چیز اندر جاسکے اور نہ اندر سے کچھ نکالا جا سکے۔

"عربی لغت اور محاورے کی رو سے ختم کے معنی مہر لگانے، بند کرنے . کے ہیں" (١٩٨٤ء، اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ٨٣٥)

٢ - ابتدا کی ضد، اخیر، انتہا، اختتام، خاتمہ، انجام۔

 گرمیاں ختم پہ تھیں آمد باراں کی تھی آس ہلکے چھینٹوں سے بجھی تھی نہ ابھی خاک کی پیاس (١٩٤٩ء، جوئے شیر، ٢٤٥)

٣ - تمام، مکمل۔

"رسول اللہۖ نے فرمایا رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی" (١٩٨٤ء، اسلامی انسائیکلو پیڈیا، ٨٣٥)

٤ - ایک نشست میں سب کامل کر پورا قرآن یا کئی قرآن پڑھنا۔

"کلام اللہ شریف کے ختم میں شرکت فرمائی اور نیاز میں بھی شریک ہوئے" (١٩٣٤ء، بہادر شاہ کا روز نامچہ، ٤)

٥ - فاتحہ، قل، نذر، نیاز۔

"شیرنی اور ختم کا دستور نہیں" (١٩٠٧ء، سفر نامہ ہندوستان، ٥٦)

٦ - درگاہ شریف پر سالانہ تقریب عرس۔

"درگاہ میں پہلے ختم پڑھا جاتا ہے اور پھر قوالی شروع ہو جاتی ہے" (١٩٦٧ء، اجڑا دیار، ٣٢٩)

٧ - حاجت بر آری کے لیے کسی آیت یا اسم مبارک کا مقررہ شرائط کے ساتھ ورد کرنا۔

"پیروں نے اسے مرید اور چیلا بنا لیا اور سرور کی مدح میں گیت گائے، ختم اور درود پڑھا" (١٩٦٢ء، حکایات پنجاب (ترجمہ)، ١٠١:١)

٨ - خوشی، غم یا کسی واقعہ کی یاد میں سالانہ تقریب، سال گرہ، برسی۔

"قبل ازیں گیارہ نومبر کا دن آتا تھا تو ہر جامنعقد ہوتا ہے جسن، اولیں جنگ عظیم یورپی کے ختم کا" (١٩٧٣ء، پرواز عقاب، ٧٧)

ختم کے جملے اور مرکبات

ختم الرسل, ختم النبی, ختم شد, ختم نبوت, ختم الانبیا, ختم بالغیر, ختم بحث, ختم خواجگان, ختم خوانی, ختم المرسلین, ختم رسالت

ختم english meaning

seal; endconclusion; a recitation or perusal of the Quran; the feast celebrated at the end of such perusal(see under فہم N.M.*)completeconcludeconclusionconsulisiondie| pass awaydoneendend| come to an end| be finishedfinishkill "hat|m ho|na"recitation of the wholw of the Holy Quranrecituation of the whole of the Holy Quranruinsealterminateterminatedthe complete reciting ceremony of Holly Quran

شاعری

  • حیرت ہے سننے والو‘ تمہیں نیند آگئی
    کیوں سورہے ہو‘ ختم ہوئی داستاں کہاں
  • کبھی نہ ختم کیا میں نے روشنی کا سفر
    اگر چراغ بُجھا‘ دل جلالیا میں نے
  • وہ روٹھ گئے ختم ہوئی دل کی کرامات
    اب بات وہ پہلی سی دعا میں نہ اثر میں
  • … کئی سال ہوگئے

    خوابوں کی دیکھ بھال میں آنکھیں اُجڑ گئیں
    تنہائیوں کی دُھوپ نے چہرے جلادیئے
    لفظوں کے جوڑنے میں عبارت بکھر چلی
    آئینے ڈھونڈنے میں کئی عکس کھوگئے
    آئے نہ پھر وہ لوٹ کے‘ اِک بار جو گئے

    ہر رہگزر میں بِھیڑ تھی لوگوں کی اِس قدر
    اِک اجنبی سے شخص کے مانوس خدّوخال
    ہاتھوں سے گر کے ٹوٹے ہُوئے آئنہ مثال
    جیسے تمام چہروں میں تقسیم ہوگئے
    اِک کہکشاں میں لاکھ ستارے سمو گئے

    وہ دن‘ وہ رُت ‘ وہ وقت ‘ وہ موسم‘ وہ سرخُوشی
    اے گردشِ حیات‘ اے رفتارِ ماہ و سال!
    کیا جمع اس زمیں پہ نہیں ہوں گے پھر کبھی؟
    جو ہم سَفر فراق کی دلدل میں کھوگئے
    پتّے ج گر کے پیڑ سے‘ رستوں کے ہوگئے

    کیا پھر کبھی نہ لوٹ کے آئے گی وہ بہار!
    کیا پھر کبھی نہ آنکھ میں اُترے گی وہ دھنک!
    جس کے وَفُورِ رنگ سے چَھلکی ہُوئی ہَوا
    کرتی ہے آج تک
    اِک زُلف میں سَجے ہُوئے پُھولوں کا انتظار!

    لمحے‘ زمانِ ہجر کے ‘ پھیلے کچھ اِس طرح
    ریگِ روانِ دشت کی تمثال ہوگئے
    اس دشتِ پُرسراب میں بھٹکے ہیں اس قدر
    نقشِ قدم تھے جتنے بھی‘ پامال ہوگئے
    اب تو کہیں پہ ختم ہو رستہ گُمان کا!
    شیشے میں دل کے سارے یقیں‘ بال ہوگئے
    جس واقعے نے آنکھ سے چھینی تھی میری نیند
    اُس واقعے کو اب تو کئی سال ہوگئے!!
  • ایک اور دھماکہ ہونے تک

    بس ایک دھماکہ ہوتا ہے
    اور جیتے جاگتے انسانوں کے جسم ’’گُتاوا‘‘ بن جاتے ہیں
    ایک ہی پَل میں
    اپنے اپنے خوابوں کے انبار سے بوجھل کتنی آنکھیں
    ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں
    اُن کے دنوں میں آنے والی ساری صبحیں کٹ جاتی ہیں
    ساری شامیں کھو جاتی ہیں
    لاشیں ڈھونڈنے والوں کی چیخوں کو سُن کر یوں لگتا ہے
    انسان کی تقدیر‘ قیامت‘
    جس کو اِک دن آنا تھا وہ آپہنچی ہے
    مرنے والے مرجاتے ہیں
    جیون کے اسٹیج پر اُن کا رول مکمل ہوجاتا ہے
    لیکن اُن کی ایگزٹ پر یہ منظر ختم نہیں ہوتا
    اِک اور ڈرامہ چلتا ہے
    اخباروں کے لوگ پھڑکتی لیڈیں گھڑنے لگ جاتے ہیں
    جِن کے دَم سے اُن کی روزی چلتی ہے اور
    ٹی وی ٹیمیں کیمرے لے کر آجاتی ہیں
    تاکہ وژیول سَج جائے اور
    اعلیٰ افسر
    اپنی اپنی سیٹ سے اُٹھ کر رش کرتے ہیں
    ایسا ناں ہو حاکمِ اعلیٰ
    یا کوئی اُس سے ملتا جُلتا
    اُن سے پہلے آپہنچے
    پھر سب مِل کر اس ’’ہونی‘‘ کے پس منظر پر
    اپنے اپنے شک کی وضاحت کرتے ہیں اور
    حاکمِ اعلیٰ یا کوئی اس سے ملتا جُلتا
    دہشت گردی کی بھرپور مذمّت کرکے
    مرنے والوں کی بیواؤں اور بچّوں کو
    سرکاری امداد کا مژدہ دیتا ہے
    اور چلتے چلتے ہاسپٹل میں
    زخمی ہونے والوں سے کچھ باتیں کرکے جاتا ہے
    حزبِ مخالف کے لیڈر بھی
    اپنے فرمودات کے اندر
    کُرسی والوں کی ناکامی‘ نااہلی اور کم کوشی کا
    خُوب ہی چرچا کرتے ہیں
    گرجا برسا کرتے ہیں
    اگلے دن اور آنے والے چند دنوں تک یہ سب باتیں
    خُوب اُچھالی جاتی ہیں‘ پھر دھیرے دھیرے
    اِن کے بدن پہ گرد سی جمنے لگتی ہے
    اور سب کچھ دُھندلا ہوجاتا ہے
    خاموشی سے اِک سمجھوتہ ہوجاتا ہے
    سب کچھ بُھول کے سونے تک!
    ایک اور دھماکہ ہونے تک!!‌‌‌‌‌‌‌‌‌
  • اکیسیوں صدی کے لیے ایک نظم

    سَمے کے رستے میں بیٹھنے سے
    تو صرف چہروں پہ گرد جمتی ہے
    اور آنکھوں میں خواب مرتے ہیں
    جن کی لاشیں اُٹھانے والا کوئی نہیں ہے!

    ہماری قسمت کے زائچوں کو بنانے والا کوئی ہو شاید
    پران کا مطلب بتانے والا کوئی نہیں ہے!
    وہ سارے رسّے روایتوں کے کہ جن کی گرہیں کَسی ہوئی ہیں
    ہمارے ہاتھوں سے اور پاؤں سے لے کے خوابوں کی گردنوں تک!
    ہماری رُوحوں میں کُھبتے جاتے ہیں
    اور ہم کو بچانے والا‘ چھڑانے و‌الا کوئی نہیں ہےِ
    زباں پہ زنجیر سی پڑی ہے
    دلوں میں پھندے ہیں
    اور آنکھوں میں شامِ زنداں کی بے کَسی ہے
    چراغ سارے بجھے پڑے ہیں جلانے والا کوئی نہیں ہے!

    مرے عزیزو‘ مجھے یہ غم ہے
    جو ہوچکا ہے بہت ہی کم ہے
    سَمے کے رَستے میں بیٹھے رہنے کے دن بھی اَب ختم ہورہے ہیں
    بچے کھُچے یہ جو بال و پَر ہیں
    جو راکھ داں میں سُلگنے والے یہ کچھ شرر ہیں
    ہمارے بچّوں کے سر چھپانے کو جو یہ گھر ہیں
    اب ان کی باری بھی آرہی ہے
    وہ ایک مہلت جو آخری تھی
    وہ جارہی ہے…
    تو اس سے پہلے ‌زمین کھائے
    ہمارے جسموں کو اور خوابوں کو
    اور چہروں پہ اپنے دامن کی اوٹ کردے
    یہ سرد مٹی جو بُھربُھری ہے
    ہماری آنکھوں کےزرد حلقے لہُو سے بھردے!

    مرے عزیزو چلو کہ آنکھوں کو مَل کے دیکھیں
    کہاں سے سُورج نکل رہے ہیں!
    سمے کے رستے پہ چل کے دیکھیں
  • پیار بٹنے سے کبھی ختم نہ ہوگا امجد
    دل کے دریا تو نہیں ہوتے اترنے والے
  • کبھی منظر بدلنے پر بھی قصہ چل نہیں پاتا
    کہانی ختم ہوئی ہے کبھی انجام سے پہلے
  • مُکر جانے والا کبھی زندگی میں، خوشی پھر نہ پائے!
    یونہی ختم کرلیں، چلو یہ کہانی، ذرا پھر سے کہنا
  • کبھی دن کی دھوپ میں جھوم کے کبھی شب کے پھول کو چوم کے
    یوں ہی ساتھ ساتھ چلیں سدا کبھی ختم اپنا سفر نہ ہو

محاورات

  • اردو کا محاورہ دلی پر ختم ہے
  • بات ختم ہونا
  • رات ختم ہونا
  • زندگی ختم ہونا
  • قرآن ختم ہونا
  • قلیا تمام یا ختم ہونا
  • میعاد پوری۔ تمام یا ختم ہونا

Related Words of "ختم":