دربان کے معنی
دربان کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دَر + بان }
تفصیلات
iفارسی زبان سے اسم جامد |در| کے ساتھ فارسی سے ہی لاحقۂ فاعلیت |بان لگایا گیا ہے فارسی سے اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا اردو میں سب سے پہلے ١٦١١ء کو قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔, m["پردہ دار","پہرہ دار","پہرے دار","چوکی دار","دروازہ کا نگہبان","محافظِ دَر","ملازم دروازہ","ڈیوڑھی بان"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : دَرْبانوں[دَر + با + نوں (و مجہول)]
دربان کے معنی
سبز گبند کی جو دربانی میں کرتا اڑ کر سارے دربانوں سے رتبہ مرا بڑھ کر ہوتا (١٩٨٥ء، رخت سفر، ٥١)
دربان کے مترادف
حاجب
بوّاب, پاسبان, پہریدار, ترّاع, چوکیدار, حاجب, دوارپال, رکھوالا, سنتری, محافظ
دربان english meaning
Door-keepergate-keeperporter
شاعری
- پاسباں سے تیرے کیا دُور جو ہو ساز رقیب
ہے نہ اک طرح کی نسبت سگ و دربان کے بیچ - کیونکے غم سرزدہ ہر لحظہ نہ آوے دل میں
گھر ہے درویش کا یاں در نہیں دربان نہیں - نیا یہ سو ہلا سُنیے لگا ہے ٹوہ میں میری
موا دربان کا لڑکا تلینڈو منجھلے بھائی کا - پھاندیئے یار کی دیوار غنیمت ہے یہ وقت
تیرہ شب خواب میں دربان ہے سگ آرام میں ہے - چپکے دینا کھول کنڈی ، لینا انشا کوبلا
ڈر بھلا کیا چاہیے دربان بوبک کا تجھے - کہا دربان سے کہہ دو کہ اک ناکام آیا ہے
مجسم حسرت دید رخ گھنشام آیا ہے - خواب شیریں مل گیا گر بخت سے
گھول دونگا دیدہ دربان میں - دیکھ کے اس درپہ جب کہتا ہے یہ درُ درُ مجھے
موتیا بند اے خدا ہو دیدہ دربان میں - یہ دق کی شکل جو دربان کھانستا ہے ترا
الہٰی اوس کو ابھی موت ہو کے سل لپٹے - خوبی بخت سے ہم یار کے گھر کب پہنچے
جب کہ دربان نے دروازہ کو معمور کیا
محاورات
- بڑا نوالہ حلق کا دربان