درخت کے معنی
درخت کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دَرَخْت }
تفصیلات
iفارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں فارسی زبان سے ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔, m["روکھ (اگانا۔اگنا بونا لگانا وغیرہ کے ساتھ)"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : دَرَختوں[دَرَخ + توں (و مجہول)]
- جمع غیر ندائی : دَرَخْتوں[دَرَخ + توں]
درخت کے معنی
یہ پیار ہے کہ دل ہے یہ شراب ہے کہ جاں ہے یہ درخت ہیں کہ سائے کسی دست مہرباں کے (١٩٨٣ء، برش قلم، ٤٨)
درخت کے مترادف
پیڑ, شجر, شجرہ, دار
برچھ, بِروا, برکش, بُوٹا, پروا, پیڑ, ترور, جھاڑ, دَرشک, دِن, شجر, نہال
درخت کے جملے اور مرکبات
درخت ممنوع, درخت ابریشم, درخت آزار, درخت زار, درخت سوار, درخت ساتر, درخت لرزاں
درخت english meaning
A treedischarge (water, etc.)tree
شاعری
- سبزان تازہ رو کی جہاں جلوہ گاہ تھی
اب دیکھئے تو واں نہیں سایہ درخت کا - درخت راہ بتائیں‘ ہلا ہلا کر ہاتھ
کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا ہے کوئی - بجھنے کی دل کی آگ نہیں زیرِ خاک بھی
ہوگا درخت گور پہ میری چنار کا - بیٹھا ہوں اس درخت کے سائے میں اس لئے
اک زلف مہرباں تھی اسی چھاؤں کی طرح - درخت شام کو لگتے ہیں شہر سے امجد
کہ شاخ شاخ پرندے اترتے جاتے ہیں - دہکتی دھوپ سمندر ہے، یہ کزیرے ہیں
گھنے درخت جو سڑکوں پہ سایہ کرتے ہیں - درخت بید مجنوں کاٹنا ہے دشت میں مجنوں
ملا ہے کیا اسے آرا مرے چاک گریباں کا - خوش ہو بدن پہ تیری زلفاں نہیں ہیں چوندھر
کالے بھجنگ مل کر گھیرے درخت صندل - اکھڑا وہ یوں گراں تھا جو در سنگ سخت سے
جس طرح توڑلے کوئی پتا درخت سے - اڑنا گلہرے کا بھی میں کیا کروں بیاں
دیکھیں درخت پر جسے چڑھ کر گلہریاں
محاورات
- پرش کی مایا اور درخت کی چھایا
- جس درخت کے سائے میں بیٹھے اسی کی جڑ کاٹے۔ جس کی ڈالی پر بیٹھیں اس کی جڑ کاٹیں
- جو درخت سامنے آئے وہی اونٹ کا چارہ ہے
- جہاں اور درخت نہیں وہاں ارنڈ ہی (پردھان) درخت ہے
- جہاں کوئی اور درخت نہیں وہاں ارنڈ ہی درخت ہے
- درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے
- درخت بوئے تھے آم کے ہوگئے ببول
- شگوفہ گاہ شگفتہ است گاہ خوشیدہ، درخت گاہ برہنہ است گاہ پوشیدہ
- کون سا درخت ہے جسے ہوا نہیں لگتی
- کونسا درخت ہے جس کو (جسے) ہوا نہیں لگی