درگاہ کے معنی
درگاہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دَر + گاہ }
تفصیلات
iفارسی زبان سے اسم جامد |در| کے ساتھ فارسی زبان سے |گاہ| بطور لاحقۂ کیفیت لگایا گیا ہے۔ اردو میں ١٩٦٧ء کو "غزال اور غزل" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ایوان شاہی","خدا کا دربار","دربار شاہی","زیارت گاہ","عبادت گاہ","کسی بزرگ کا مزار"]
اسم
اسم ظرف مکاں ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : دَرْگاہیں[دَر + گا + ہیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : دَرْگاہوں[دَر + گا + ہوں (و مجہول)]
درگاہ کے معنی
کیوں چھوڑ کے درگاہ مغاں جاتے ہو ٹھکرا کے سب اسرار نہاں جاتے ہو
درگاہ کے مترادف
دربار, جناب, ڈیوڑھی
آستانہ, بارگاہ, چوکھٹ, خانقاہ, دربار, روضہ, محل, مزار, مسجد, مقبرہ, مندر, مٹھ, کچہری
درگاہ english meaning
Portaldoor; threshold; a royal courta place; a mosque; shrine or tomb (of some reputed saintwhich is the object of worship and pilgrimage).a royal courta shrinethreshold
شاعری
- تیری درگاہ میں جبریل کے پر کیوں نہ جلیں
یہیں ہے نور جلالی خدا عزوجل (کذا) - رہوں جا کے مر حضرت یار میں
یہی قصد ہے بندہ درگاہ کا - جو ہیں چھڑیوں کے لوگ ان کو چمک دکھلا کے بالے کی
گئے تم ٹمالے بالے دے مجھے درگاہ بالے کی - آیا حکم درگاہ تے اے میرے خاص
جو کچھ تج کو ہونا سو منگ میرے پاس - دیتی ہے شان کریمی اسے حسب دلخواہ
تیری درگاہ سے بھرتا نہیں سائل خالی - جیتے سر فرازاں جو درگاہ کے
جیتے محرماں خاص خر گاہ کے - دھریں آس سب تیری درگاہ کی
کریں بندگی سب تج اللہ کی - مل کے تیغ اس کے سے مصرع میرے بسم اللہ کا
ہوگیا پیدا وہ مطلع بندہ درگاہ کا - تیر سا درگاہ جاؤں گا میں چلہ کھولنے
دوستی جب تجھ سے اے ابرو کماں ہوجائے گی - حاجب درگاہ رہتے ہیں سلاطیں سربکف
واجب التعظیم ہے اے بے ادب سرکار حسن