دستوری

{ دَس + تُو + ری }

تفصیلات

iفارسی زبان سے ماخوذ اسم |دستور| کے ساتھ |ی| بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے |دستوری| بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨٢٤ء سے "سیرِ عشرت" میں مستعمل ملتا ہے۔

["دَسْتُور "," دَسْتُوری"]

اسم

صفت نسبتی ( واحد ), اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )

دستوری کے معنی

["١ - دستور (بنیادی قانون) سے متعلق، قانونی، ایسی حکومت جو کسی دستوری کی پابند ہو، پارلیمانی۔","٢ - جس کا عام رواج ہو۔"]

["\"دستوری فیصلے ١٩٥٦ء کے بعد جسے آئین ١٩٦٢ء میں پاکستان تک محدود ہو جاتا ہے۔\" (١٩٨٥ء، پاکستان میں نفاذ اردو کی داستان، ١٢)","دستوری تحائف کے علاوہ حکومت کو اونٹوں اور گدھوں کی ایک معین تعداد بھی ہر سال دی جاتی ہے۔\" (١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٧١٧:٣)"]

["١ - اجازت؛ رخصت۔","٢ - کمیشن، بٹا، چنگی، محصول جو رائج ہو اور بطور حق کے لیا جائے، دلاتی۔"]

[" یوں ہی گر قائم رہا آئین بیداد فرنگ دیکھ لینا اس حکومت کو کہ دستوری ہوئی (١٩٢٥ء، بہارستان، ٧٨٧)","\"جو قافلے اپنے ملک کے خشک میوے اور چمڑے وغیرہ لے کر ہندوستان کو آیا کرتے ہیں . وہ ان قوموں کو دستوری دیتے ہیں جب کہیں گزرنے پاتے ہیں۔\" (١٩١٠ء، سپاہی سے صوبہ دار، ١٢١)"]

مترادف

آئینی

مرکبات

دستوری بٹا, دستوری حکومت