دو چار کے معنی
دو چار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دو + چار }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ اسم صفت عددی کے ساتھ فارسی اسم صفت عددی |چہار| سے ماخوذ لفظ |چار| لگا کر مرکب بنایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٥٧ء کو "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔, m[]
اسم
اسم مجرد ( مؤنث - واحد ), صفت مقداری
دو چار کے معنی
[" تڑپے ہے دل پیام سن اس بے قرار کا تسکین جاں ہے وقت ہو جس دم دو چار کا (١٧٩٩ء، دیوان چندا (ق)، ١٧)"]
[" اپنے دو چار گناہوں سے بھی آتا ہے حجاب ہم خطا کار دعاؤں سے بہل جاتے ہیں (١٩٧٥ء، پردۂ سخن، ٥٨)"," دو چار برق تجلی سے رہنے والوں نے فریب نرم نگاہی کے کھائے ہیں کیا کیا (١٩٤٦ء، رمز و کنایات، ٣)"]
دو چار english meaning
A meetingan interviewbe overjoyed
شاعری
- داستانِ شکست دل ہے وہی
ایک دو چار باب تازہ ہیں - دو چار دن تو کتنے سکوں سے گزر گئے
سب خیریت رہی کوئی اپنا نہیں ملا - مارتی پاپوش پر ہوں ایسی روٹی آپ کی
جوتیاں مارو گے کل دیں گالیاں دو چار آج - دو چار قدم چل کے وہ پھر ضعف سے گرنا
آنکھوں تلے نانا کی وہ تصویر کا پھرنا - جلوہ نقاب الٹ کے جو تم نے دکھا دیا
غش آگئے الٹ گئیں دو چار پتلیاں - آخر تو روزے آئے دو چار روز ہم بھی
ترسا بچوں میں جاکر دارو پیا کریں گے - عشق میں آئی نہ دس بیس نہ دو چار کی موت
کتنے اس کھیت میں مارے گئے تلوار کی موت - دو چار ہوئے کہیں مجھ سے گر وہ نرگس چشم
تو کیا تماشے کی پھولے بہار آنکھوں میں - بوسے کی طلب سے تو رہے گا تہی اے دل
جب گالیاں دو چار وہ تنخواہ کرے گا - جو‘ ان میں لڑکیاں بھی کئی تھیں حیا نگار
جادو پہ جادو جب یہ ہوا آن کر دو چار
محاورات
- آنکھیں دو چار کرنا
- آنکھیں دو چار ہونا
- دو چار ہونا