دیمک کے معنی
دیمک کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دی + مَک }
تفصیلات
iفارسی زبان سے اسم |دیو| کے ساتھ حصہ تصغیر |ک| لگانے سے |دیوک| بنا جس میں تصرف کیا گیا ہے۔ اردو میں ١٨١٠ء کو "اخوان الصفا" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(مجازاً) کوئی نقصان دہ انسان یا چیز","ایک سفید چیونٹی جو لکڑی اور کاغذ وغیرہ کو کھا جاتی ہے","ایک قسم کی سفید چیونٹی جو اکثر لکڑی کتاب وغیرہ کو چاٹ کر خاک کردیتی ہے","ایک قسم کی سفید چیونٹی جو نرم اشیاء کو کھا جاتی ہے اور ان کی بجائے مٹی چھوڑ جاتی ہے","جم جانے والا (جس سے جان چھڑانی مشکل ہوجائے)","چپک جانے والا","ف ۔ دیوگ سے"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : دِیمَکوں[دی + مَکوں (و مجہول)]
دیمک کے معنی
"دیمک کے تودوں کے . پاس اردو اک کے پکڑنے کے لیے پنجرے بنائے جاتے ہیں جہاں یہ پھنس جاتا ہے۔" (١٩٧٥ء، افریقہ کے جانور، ٩:٢)
"ناظم صوبہ کیا ہے دیمک ہے جس جگہ چپکا اوس کو برباد کر دیا۔" (١٩٠٦ء، مرات احمدی، ١٢٨)
دیمک کے مترادف
گھن
دیمک کے جملے اور مرکبات
دیمک زدہ, دیمک چاٹی
شاعری
- پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم
محاورات
- دیمک کے دانت اور سانپ کے پاؤں اور چیونٹی کی ناک کس نے دیکھی
- دیمک کے کھائے پیڑ۔ سوچ کے مارے دیہ کسی کام کے نہیں رہتے