رخصت کے معنی
رخصت کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ رُخ + صَت }
تفصیلات
iعربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم مشتق ہے اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٨٧٨ء میں "گلزارِ داغ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["نرم ہونا","اجازتِ رفتن","اجازت ہے","اللہ کی طرف سے بندے کو کسی کام میں تخفیف کی اجازت ہونا","جنازہ اٹھنے کا وقت","جنازہ اٹھنےکا وقت"]
رخص رُخْصَت
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : رُخْصَتیں[رُخ + صَتیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : رُخْصَتوں[رُخ + صَتوں (و مجہول)]
رخصت کے معنی
"دفتر یا مدرسے ایک یا زیادہ دنوں کی عدم حاضری کے لیے رخصت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔" (١٩٧٤ء، پھر نظر میں پھول مہکے، ٦٤)
پیٹ بھروں نے تھوڑا تھوڑا کھانا کھایا اک اک کر کے میزبان سے رخصت چاہی (١٩٧٥ء، نظمانے، ٤٤)
یادوں کی گھنی چھاؤں بھی رخصت ہوئی گھر سے اک اور سفر کے لیے لوٹ آؤ سفر سے (١٩٧٧ء، دریا آخر دریا ہے، ٥٣)
"اس میں بھی یہی رخصت و عزیمت والی بات ہے۔" (١٩٤٨ء، تبرکاتِ آزاد، ٣٣٦)
"قرض خواہ قرض دار کو رخصت دے سکتا ہے اور جب ایسا ہے بس باپ بھی بیٹے کو رخصت دے سکتا ہے۔" (١٩٣١ء، اخلاق نقوماجس (ترجمہ)، ٣٠٤)
"تیسرے دن نکاح، رخصت اور سب کچھ ہو گیا۔" (١٩٥٢ء، جوش (سلطان حیدر) ہوائی، ١٠)
رخصت کے لیے لوگ چلے آتے ہیں باہم ہر قلب حزیں ہے تو ہر اک آنکھ ہے پرنم (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ١٢٢:١)
"رخصت : اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت امام حسین کے خیمے سے جب کوئی بہادر میدان جنگ کی طرف کوچ کرتا ہے۔" (١٩٨٣ء، اصنافِ سخن اور شعری ہیئتیں، ٨٤، ٧٠)
"دوپہر کو بخار چڑھا شام کو بے ہوش، رات کو سکرات، صبح کو رخصت گھنٹہ ہی بھر میں تمام شہر میں شہرت ہو گئی۔" (١٨٩٥ء، حیات صالحہ، ٦٨)
دیکھ لی سیرِ حرم حضرتِ زاہد رخصت آپ کا کعبہ مرا بتکدہ آباد رہے (١٨٧٨ء، گلزارِ داغ، ٢٤٣)
رخصت کے مترادف
تعطیل, رضا, چھٹی, روانگی, وداع, معزولی
آگیا, اجازت, اذن, برطرفی, پروانگی, تعطیل, جاؤ, چھٹی, رَخَصَ, رضا, روانگی, عزل, فراغت, فرصت, معزولی, منظوری, مہلت, وداع, وقفہ, کوچ
رخصت کے جملے اور مرکبات
رخصت اتفاقی, رخصت بیماری, رخصت خاص, رخصت پر, رخصت خانگی, رخصت رعایتی, رخصت یاب, رخصتی پارٹی
رخصت english meaning
"facilitationlicenseindulgence"; leavepermission to departleave of absencedismissionleavepermissionsending out daughter as bride
شاعری
- ایسے کوئی جہاں سے جاوے رخصت اس حسرت سے ہوئے
اس کوچے سے نکل کر ہم نے ردِ قفا ہر گام کیا - دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
گِر یہ کچھ بے سبب نہیں آتا - تاب و طاقت کو تو رخصت ہوئے مدت گزری
پند گو یوں ہی نکراب خلل اوقات کے بیچ - نظر میر نے کیسی حسرت سے کی
بہت روئے ہم اُس کی رخصت کے بعد - دمِ رخصت وہ چپ رہے عابد
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل - رخصت ہوئے تو جانا سب کام تھے ادھورے
کیا کیا کریں جہاں میں دو ہات آدمی کے - ریل کی سیٹی میں کیسے ہجر کی تمہید تھی
اس کو رخصت کرکے گھر لوٹے تو اندازہ ہوا - عمر بھر کی تلخیاں دے کر وہ رخصت ہوگیا
آج کے دن کے سوا‘ روزِ جزا کوئی نہیں - وقتِ رخصت تسلیاں دے کر
اور بھی اس نے بے قرار کیا - وقتِ رخصت جھلملا جاتے ہیں ان آنکھوں میں اشک
اس کا جانا یاد آتا ہے‘ جدا کوئی بھی ہو
محاورات
- چراغ رخصت ہونا
- رخصت (نا) منظور ہونا
- رخصت کرنا
- رخصت ہونا
- روح رخصت ہونا
- صبر رخصت ہونا
- یا غور غریباں یا رخصت جھنجھانا