رسیا کے معنی
رسیا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ رَسْ + یا }
تفصیلات
iسنسکرت سے ماخوذ اسم |رس| کے ساتھ |یا| بطور لاحقۂ صفت ملا کر اسم صفت بنایا گیا ہے۔اردو میں سب سے پہلے ١٧١٨ء میں "دیوانِ آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["چاہنے والا","خوش خور","خوش خوراک","رنگین مزاج","زن فاحشہ کا آشنا","س۔ رَسِک","طرح دار","عیش پرست","عیش کوش","وہ شخص جو زندگی مزے میں گزارے"]
رَس رَسْیا
اسم
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : رَسْیاؤں[رَس + یا + ؤں (و مجہول)]
رسیا کے معنی
"دونوں ہی طرح کے لوگ مدعو تھے سبزی کھانے والے بھی اور مرغ مچھلی گوشت کے رسیا بھی۔" (١٩٨٧ء، ساتواں پھیرا، ٣)
"بنسی سنگھ نام کا ایک ٹھاکر تھا بڑا چھبیلا بڑا رسیا . اس کے گھر کے چکر لگاتا۔" (١٩٣٦ء، پریم چند، زادراہ، ٧)
زنِ پر شوق رسیا یا کہ شوقین بہت ہی جلد آ جاتی ہیں ہنس کر (١٩٣٨ء، کلیاتِ عریاں، ٢٣)
رسیا کے مترادف
بانکا, مشتاق
بانکا, چٹورا, چھبیلا, دلداہ, دھگڑا, رسیلا, رنگیلا, شوقین, شیدا, طرحدار, عیاش, مشتاق, مُشٹنڈا, وضعدار
رسیا english meaning
addictfond
شاعری
- لوبھی پاپی پیٹ کے بندے میری نوائیں کیا سمجھیں
ناظر ہے اس راگ کا رسیا اس کو گیت سناتا ہوں - جب آنکھ اٹھائی ہستی سے جب نین لگے مٹکانے کو
سب کاچھ کچھے سب ناچ نچے اس رسیا چھیل رجھانے کو - اس بات کو تو عمدہ ہو بھوگ کا بلسیا
جو اژد ہے کوپالے ایسا ہے کون رسیا - سندر جو ناریاں تھیں وہ کرتی تھیں کام کاج
رسیا کا ان دنوں تو عجب اس کا تھا مزاج - دو تن جدائی پاڑنے تدبیر کی ولے
سائیں ہمارا ہم تے کدھیں بھی رسیا نہیں - جب آنکھ مٹھائی ہستی ہے جب نین لگے مٹکانے کو
سب کا چھ کچھے، سب ناچ نچے اس رسیا چھیل رجھانے کو - کھڑے توں آج لگ منج باج رنہارانتھا سوں میں
جو منج بن کر بجر سینا رسیا ہےسو بجرکاتوں
محاورات
- اندھے رسیا آئینہ پر مریں
- دھول (سے) کی رسی (رسیاں) بٹنا
- گھر کا پرسیا اندھیری رات
- مورسیاں چکنیاں پچاس بیڑا کھائے۔ آگے پیچھے رنہادیوانہ بنے جائے