رنج کے معنی
رنج کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ رِنْج (ن غنہ) }{ رَنْج }
تفصیلات
١ - نفع، منافع (جو تجارت وغیرہ میں ہو)۔, iفارسی زبان میں رَنْجِیدَن مصدر سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٦١١ء میں قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(ف) غصہ"]
رَنْجِیدَن رَنْج
اسم
اسم نکرہ, اسم کیفیت ( مذکر - واحد، جمع )
رنج کے معنی
دیکھ کے مجھ کو یہ اندازہ لگا لو افسر رنج کتنا ہے زمانے میں خوشی ہے کتنی (١٩٨٦ء، غبار ماہ، ٦٩)
لکھو مرے مسیح کو سب میرا حالِ زار دادی پہ رنج ہجرِ پور ہے، نہیں بخار (١٨٩٤ء، سجاد رائے پوری، د (ق)، ٥)
رنجِ مسافرت میں ہیں سلطان بحر و بر لب برگِ گل سے خشک ہیں چہرہ عرق میں تر (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٣٢:١)
نہ ہو گر ہتکڑی بیڑی نہیں پھانسی تو ہے احمق جو سر رکھتے ہیں ان کو رنج کیا بے دست و پائی کا (١٩٤٢ء، دیوانِ رند، ٢٢٢:١)
"عقلمندی کا کام یہ ہے کہ اگر کسی عزیز کی طرف سے رنج پہونچے تو اس کو خوب اچھی طرح تحقیق کرے۔" (١٩٠٨ء، صبحِ زندگی، ٩٨)
رنج کے مترادف
آزردگی, حسرت, درد, دکھ, صدمہ, کرب, پچھتاوا, سوگ, سوچ, کلفت, افتاد, افسردگی, افسوس, الم, ماتم, غم, غبار, محرم
آزردگی, افسوس, الم, اندوہ, بن, بیماری, پچھتاوا, تاسف, تکلیف, جنگل, حزن, درد, دکھ, سوگ, صدمہ, غصہ, غم, ملال, ناراضگی, نفرت
رنج کے جملے اور مرکبات
رنج و غم, رنج و الم, رنج انگیز, رنج راہ
رنج english meaning
trouble; sorrowgriefaffliction; sadness; anguish of mind; painstoilinconvenience(usu. overmuch)afflictionanguish of mindattention to style |A|be reprimandeddistressincur displeasure (of) |A|ornamentation of stylesadnesssorrow
شاعری
- ٹک ترکِ عشق کرکے لاغر بہت ہوئے ہم
آدھا نہیں رہا ہے اب جسم رنج فرسا - تھی جب تلک جوانی رنج و تعب اُٹھائے
اب کیا ہے میر جی میں ترکِ ستمگری کر - الفت سے پرہیز کیا کر کلفت اس میں قیامت ہے
یعنی درد و رنج و تعب ہے آفت جان و بلا ہے عشق - کچھ رنج دلی میر جوانی میں کھنچا تھا
زردی نہیں جاتی مرے رخسار سے ابتک - عشق تو کار خوب ہے لیکن میر کھنچے ہے رنج بہت
کاشکے عالم ِ ہستی میں بے عشق و محبت آتے ہم - اب آپ کس لئے اتنے ملول ہوتے ہیں
دیا تھا رنج تو کچھ سوچ کر دیا ہوتا - تمام عمر ترا انتظار کرلیں گے!
مگر یہ رنج رہے گا کہ زندگی کم ہے! - ہیلن
(مارلو کے اشعار کا آزاد ترجمہ)
’’یہی وہ چہرہ تھا
جس کی خاطر ہزار ہا بادبان کُھلے تھے
اسی کی خاطر
منار ایلم کے راکھ بن کر بھسم ہوئے تھے
اے میری جانِ بہار ہیلن!
طلسمِ بوسہ سے میری ہستی امر بنادے
(یہ اس کے ہونٹوں کے لمسِ شیریں میں کیا کشش ہے کہ روح تحلیل ہورہی ہے)
اِک اور بوسہ
کہ میری رُوحِ پریدہ میرے بدن میں پلٹے
یہ آرزو ہے کہ ان لبوں کے بہشت سائے میں عُمر کاٹوں
کہ ساری دُنیا کے نقش باطل
بس ایک نقشِ ثبات ہیلن
سوائے ہیلن کے سب فنا ہے
کہ ہے دلیلِ حیات ہیلن!
اے میری ہیلن!
تری طلب میں ہر ایک ذلّت مجھے گوارا
میں اپنا گھر بارِ اپنا نام و نمود تجھ پر نثار کردوں
جو حکم دے وہ سوانگ بھرلوں
ہر ایک دیوار ڈھا کے تیرا وصال جیتوں
کہ ساری دنیا کے رنج و غم کے بدل پہ بھاری ہے
تیرے ہونٹوں کا ایک بوسہ
سُبک مثالِ ہوائے شامِ وصال‘ ہیلن!
ستارے پوشاک ہیں تری
اور تیرا چہرہ‘ تمام سیّارگاں کے چہروں سے بڑھ کے روشن
شعاعِ حسنِ اَزل سے خُوشتر ہیں تیرے جلوے
تُمہیں ہو میری وفا کی منزل…!
تُمہیں ہو کشتی‘ تمہیں ہو ساحل‘‘ - دل کو حصارِ رنج و الم سے نکال بھی
کب سے بکھررہا ہوں مجھے اب سنبھال بھی - شاد تھا رنج رہگزر میں کوئی!
کوئی منزل پہ ہاتھ ملتا رہا
محاورات
- آثار رنج و ملال ظاہر(عیاں) ہونا
- آنکھ ناک مکھر موند کے نام نرنجن لے۔ بھیتر کے پٹ جب کھلیں جب باہر کے پٹ دے
- بجز از رنج گنج میسر نمی شود
- تن پر سوہے کا پڑا اور رن سو ہے رنجیت۔ بیر پرکھ سوہی بھلے جو سب سے رکھیں پریت
- جہاں گنج وہاں رنج
- دل سے رنج دور ہونا
- دل سے رنج دور کرنا
- رنج راہ سے آسودہ ہونا
- رنج سے چھوٹنا
- رنج مول لینا