روز کے معنی
روز کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ روز (و مجہول) }
تفصیلات
iاصلاً فارسی اسم ہے۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ سنسکرت زبان کے لفظ |روچ| سے ماخوذ ہو مگر اغلب یہی ہے کہ فارسی سے اردو میں داخل ہوا۔ اردو میں بھی بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء میں "قطب مشتری" کے ضمیمہ میں مستعمل ملتا ہے۔, m["آئے دن","تاریخ وفات","دن بھر کی اجرت","فی دن","مرنے کا دن","ہر روز","یومِ عُرس","یوم فاتحہ"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد، جمع )
روز کے معنی
"تخت نشینی کے پانچ روز کے اندر ہی ان ذلیل اور کمینے لوگوں نے محل میں بت پرستی شروع کر دی۔" (١٩٨١ء، سفر در سفر، ١٨٦)
یہ کہتی کیا ہی خوش تھا روز ہمدم کہ میں رہتی تھی دلبر ساتھ باہم (١٧٩٧ء، یوسف زلیخا، فگار، ٧٦)
نہیں منصب و جاگیر نہیں روز وظیفہ ہر روز ترا نام وظیفہ ہے ولی کوں (١٧٠٧ء، کلیاتِ ولی، ١٥٠)
"ہم ان کے یہاں روز آنے لگے۔" (١٩٨١ء، سفر در سفر، ١٢٠)
روز کے جملے اور مرکبات
روز ازل, روز مرہ, روزگار, روز قیامت, روز روشن, روز حشر, روز جزا, روز بروز, روز افزوں, روزنامہ, روزنامچہ, روز آخرت, روز اول, روز بد, روز کا قصہ, روزنشور, روز و شب, روز محشر, روز موعود, روزکا, روز کوری, روزگار پیشہ, روز الست, روزبد, روز پسیں, روز ترویہ, روز ایجاد, روز آفرینش, روز باحور, روز سیاہ, روز عاشور, روز فراق, روز حساب, روز خوش, روز روز, روز ہیاتی, روزف ہیجا, روزنامہ نویس, روز نشور, روزف معاد, روز مہر, روز میثاق, روز میدان, روز میزان, روز فردا, روز قیام, روز کا, روز کا معمول, روز داد, روز روز کا, روز شمار, روز بہی, روز تقسیم, روز جنگ, روزف حقیقی, روزف حکمتی, روز خلقت, روز بازار, روز باز پرس
روز english meaning
Day; a day of twenty-four hours; daily wages(Plural) of عقیدہ N.M.*avenuefashionmademannerstyle behaviourwalk
شاعری
- حقیقت نہ میر اپنی سمجھی گئی!
شب و روز ہم نے تامل کیا!! - حساب کاہے کا روز شمار میں مجھ سے
شمار ہی نہیں ہے کچھ مرے گناہوں کا - شب درد و غم سے عرصہ مرے جی پہ تنگ تھا
آیا شبِ فراق تھی یا روز جنگ تھا - تم بھی اے مالکانِ روز جزا
بخش دو اب گناہ مت پوچھو - روز محشر ہے رات ہجراں کی
ایسی ہم زندگی سے ہیں بیزار - روز شمار میں بھی محاسب ہے گر کوئی
تو لے حساب کچھ نہ کر آخر حساب ہے - گلیوں میں بہت ہم تو پریشاں سے پھرے ہیں
اوباش کسو روز لگادیں گے ٹھکانے - کہتے ہیں گور میں بھی ہیں تین روز بھاری
جاویں کدھر آلہی مارے ہوئے فلک کے - اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پُر آب روز و شب
ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خوشاب روز و شب - اک وقت رونے کا تھا ہمیں بھی خیال سا
آتے تھے آنکھوں سے چلے سیلاب روز و شب
محاورات
- آئی تو ربائی نہیں فقط چارپائی۔ آئی تو روزی نہیں روزہ۔ آئی تو نوش نہیں فراموش
- آنکھوں میں دن (روز روشن ) تاریک تیرہ و تار ہونا
- آیا (آدمی) بندہ آئی روزی گیا (آدمی) بندہ گئی روزی
- آیا بندہ آئی روزی‘ گیا بندہ گئی روزی
- امروز فردا میں
- امروز فردا کرنا
- اندھے کے پاؤں تلے بٹیر دب گئی۔ کہا روز شکار کھائیں گے
- اندھے کے پانو تلے بٹیر دب گئی، کہا ہر روز شکار کھائیں گے
- ایک روز لاکلام کوچ ہے
- برس روز میں سوانگ لائے کوڑھی کا