سبک کے معنی
سبک کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سُبْک }
تفصیلات
iاصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت اور گاہے متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٤٩ء کو "خاورنامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بے آبرو","بے حہ","بے عزت","بے وقار","ضدِ گراں و سنگین","نازک لطیف","کم ظرف"]
اسم
صفت ذاتی ( واحد ), متعلق فعل
سبک کے معنی
["\"یہ جوتا بے حد نازک، سبک، اور لچکدار ہے۔\" (١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ٥٦٣)"," دیکھتا کیا ہوں کہ ماحول وراثت کا جوا نوع انسان کے سبک شانے پہ ہے رکھا ہوا (١٩٣٣ء، فکر و نشاط، ١١٣)","\"جدید نظریہ ہے کہ الفاظ اپنی مفرد حیثیت میں نہ ثقیل ہوتے ہیں نہ سبک، نہ فصیح اور نہ غیر فصیح۔\" (١٩٨٥ء، کشاف تنقیدی اصطلاحات، ٥٦)","\"کھلتا ہوا چمپئی رنگ، سبک نقش و نگار، ابھری ہوئی سیاہ آنکھیں وہ اچھی خوش شکل لڑکی تھی۔\" (١٩٨٦ء، جانگلوس، ١٠٩)","\"سنت وہ ہے کہ بعد دوسرے سجدہ کے زمیں پر بیٹھے ایک نشست سبک پھر اوٹھ کھڑا ہو۔\" (١٨٧٣ء، مطلع العجائب (ترجمہ)، ٧٩)","\"غذائیت سبک استعمال کرتی چاہیے۔\" (١٨٩٩ء، مکتوبات حالی، ٢٧٦:٢)"," مری نظر میں ہیں ناکارہ وہ سبک فن کار حسین تر جو بناتے نہیں حسینوں کو (١٩٥٥ء، سموم و صبا، ١٦)"," غفلت کا یہ عالم ہے کہ یہ بھی نہیں احساس ہم کتنے سبک ہو گئے آقا کی نظر میں (١٩٨٤ء، ذکر خیر الانام، ٧٢)"," خوش دلی عفو و عنایت کی نشانی ہو گی میں سبک ہوں گا جو خاطر پہ گرانی ہو گی (١٩١٧ء، رشید (پیارے صاحب)، گلزار رشید، ١٢)","\"تیتر . کی اڑان نیچی اور نہایت سبک ہوتی ہے۔\" (١٩٨٤ء، چولستان، ١١٩)"," عقل کا دست سبک رخش جنوں کی باگ پر قہقہہ خس کا کڑکتی بجلیوں کی آگ پر (١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٣٦)"," مجھ روسیہ کا نامہ اعمال ہے سپید کیا سبک ہوں حشر میں بار گناہ سے (١٩١٠ء، خوبی سخن، ٥٤)","\"ڈرامائی عمل کی بنت اور بڑھت سبک اور صناعانہ ہے۔\" (١٩٨١ء، قرض دوستاں، ٤٢)"]
["\"رستم نے اسباب حرب طلب کیا، گرز شام اوس پل نیک نام کو دیا سبک زمین سے اوٹھا لیا۔\" (١٨٤٧ء، سرور سلطانی، ٦١)"]
سبک کے مترادف
چست, نازک
پتلا, تیز, چالاک, چست, چُست, حقیر, خفیف, خوار, ذلیل, رسوا, نازک, نیچ, ہلکا, ہوچھا
شاعری
- سبک کردیا دل کی بے طاقتی نے
نجانا تھا اس کی طرف ہم کو ہر بار - طبیب سبک عقل ہرگز نہ سمجھا
ہوا دردِ عشق آہ دونا دوا سے - وصل کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری تھی
ہجر کی شب ہے تو کیا سخت گراں ٹھہری ہے - گلشن دہر تلک آئی برس دن میں بہار
اس سبک دوش کو بھاری ہوئی منزل کیا کیا - لاکھ بھاری ان کے بیٹھیں پر سبک ہیں بے وقار
بے ترازو پاگئے ان کو ظفر اٹکل سے ہم - شروع حسن میں اچھا نہیں تنزل عشق
یہ چال بھاری ہے اختر سبک روی کیجے - بھورے مگسی تانبڑے ببرے بھی خوش احوال
پھر ہسترے اور کاسنی لوٹن بھی سبک بال - پانی سے آنکھ تک لب دریا خشک نہ کر
میں واری سب کی آنکھوں میں مجھ کو سبک نہ کر - دل یہ کہتا تھا کہ نظروں میں خنک ہونگے ہم
حریہ کہتا تھا کہ آنکھوں میں سبک ہونگے ہم - تحریک نسیم و صبح صادق
کشتی سبک و ہوا موافق
محاورات
- آنکھوں میں سبک کرنا
- آنکھوں میں سبک ہونا
- بات سبک ہونا
- شب تاریک و بیم موج و گردابے چنیں ہائل۔ کجاد انند حال سبکساران ساحل ہا
- مر بے برگ راسبک از جائے گیر ۔ کوزہ بے دست چوبینقی بہ دودستش بردار
- مرد بے برگ و نوار اسبک از جائے۔ کوزہ بے دست چوبینی بہ دو دستش بردار
- نظر میں سبک ہونا
- نگاہ میں سبک ہوجانا