سم کے معنی
سم کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سَم }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٠٧ء کو "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔, ١ - زہر۔, m["(موسیقی) تال جو آخری ضرب کے وزن کے ساتھ برابر ہو","(ہئیت) درمیانی ہم قدر قطع دائرہ","اردو میں اکیلا بالجزم استعمال ہوتا ہے","سُرِ (دینا کے ساتھ)","علم موسیقی میں تال جو آخری ضرب کے ساتھ وزن میں برابر ہو","گھوڑے یا گدھے کا پاؤں جو سخت ہوتا ہے اور بیچ میں سے پھٹا ہوا نہیں ہوتا جو پھٹا ہوا ہو اسے کُھر کہتے ہیں جیسے گائے بھینس کا","مرکبات میں استعمال ہوتا ہے","مل کر","ہم وزن","ہموار میدان"]
سمم سَم
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد ), اسم نکرہ
سم کے معنی
خنجر میں، سم میں، سانپ میں موجود ہے اگر تاثیر، دھار، ڈنک تو محفوظ ہوں ادھر (١٩٨٤ء، قہر عشق، ٤٠٩)
سم کے جملے اور مرکبات
سم الفار, سم آب, سم آلود, سم خوردہ, سم دار, سم ربودہ, سم قاتل
سم english meaning
Poisonbeatcircumferencecursecurve in stretched thingdashhe is a gluttonlamentmournpunishred rosyriver channelspanstrikestring (of kite while flying)thrashthreshtread
شاعری
- اُس لب جاں بخش کی حسرت نے مارا جان سے
اُب حیوان یُمن طالع سے مرے سم ہوگیا - بہت دن سے سمندر کی ہوا گم سم سی آتی ہے
نہ ہوں طوفان کے رخ پر سفینے، دیکھ تو آئیں - ٹپک رہا ہے سماعت میں کچھ نہ کچھ امجد
غمِ حیات کا سم ہے کہ رس، نہیں معلوم - آب دو آتشیں سے گرانی ہے خود مجھے
بہر مریض عشق تو ہوتا ہے سم گلاب - جو بھاگی رتی رائے کی کر منم
کہی حسن میں کوئی نئیں اپنے سم - سم کھا کے سونے درد دل زار کوم ہوا
بارے کچھ ا دوا سے تو آزار کم ہوا - خود اپنا مسیحا ہے الفت میں وہ آزاری
جس نے سم قاتل کو اک تلخ دواجانا - ہے توڑ یہ بھوک کا کہ سم کھا لیجے
تھوکر بھی لگے تو ہر قدم کھا لیجے - ڈھونڈو تو بھلا نقش سم لعل کہیں ہے
دنیا میں جگہ پاؤں کے رکھنے کی نہیں ہے - ترنگ راؤ جس آہنی سم اہے
جسے دم سو نصرت کی پرچم اہے
محاورات
- سمپت سے بھٹیا نہیں۔ دلدر سے ٹوٹن
- (قسمت کا) لکھا پورا کرنا
- (کی قسمت کا) ستارہ چمکنا
- آب بہ ریسماں بستن
- آب و ہوا میں سمیت آجانا
- آپ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں
- آپ میں نہ سمانا (ہونا)
- آپ کو آسمان پر کھینچنا
- آپ کو شاخ زعفران جاننا۔ سمجھنا یا گننا
- آپ کو شاخ زعفران سمجھنا