شمر کے معنی
شمر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ شِمْر }
تفصیلات
iعربی میں اسم علم ہے۔ اصل صورت اور مفہوم کے ساتھ اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیاتِ قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["یزید کے ایک سپہ سالار یا فوجدار کا نام جس ملعُون نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو میدان کربلا میں شہید کیا تھا","یزید کے ایک سپہ سالار یا فوجدار کا نام جس ملعُون نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو میدان کربلا میں شہید کیا تھا"]
اسم
اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
شمر کے معنی
شمر و بوجہل وکوفی و شامی بوذر و بایزید و بسطامی (١٩٥٧ء، نبضِ دورا،٢٤٩)
شمر english meaning
Name of one of Yazid|s general who slew Imam Hussain (P.B.U.H) in the plains of Karbala
شاعری
- آنے کی شمر کی ہوئی چو تھی کو دھوم دھام
تھی پانچویں کہ دشت ستم بھر گیا تمام - شہید ہوگئے جب کربلا میں آں سرور
تو لوٹنے کو چلا شمر اہل بیت کا گھر - تدبیر چل گئی جو شہ نیک ذات کی
آنکھوں میں شمر نے بھی تجاہل سے بات کی - شمر و پسر سعد سے کیا چشم وفا ہے
نظروں میں مروت ہے نہ آنکھوں میں حیا ہے - لحاظ شمر کی آنکھوں میں گر ذرا ہوتا
تو کیوں علی کا پسر کشتہ جفا ہوتا - کیا شمر ستمگار سے ہو چشم عنایت
دل میں نہ محبت ہے نہ آنکھوں میں مروت - خاموش رہے شمر اسی میں ہے بھلائی
کاٹوں گا زباں میں جو کوئی بات سنائی - حیدر کے یہ دلدار ہیں سبیر کے بھائی
بہکاکے انھیں شمر نے کیوں بات کنوائی - ورد آیتوں کا برسرمیداں جو کرلیا
ان مہوشوں شمر کو باتوں میں دھرلیا - وہی شہید سعید شمر و یزید سے
باج بے کسی داد بے بسی اجرت شکیبائی لے گا
محاورات
- دشمن دتواں حقیر و بیچارہ شمرد
- غنیمت شمر صحت دوستاں۔ کہ گل چند روز است در بوستاں
- ہر کہ عیب دگراں پیش تو آوردو شمرد۔ بیگماں عیب تو پیش دگراں خواہد یرد