شہد کے معنی
شہد کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ شَہْد (فتحہ ش مجہول) }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں بعینہ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٤٢١ء کو "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بہت شیریں","عسل مع موم","وہ میٹھا شیرا جو شہد کی مکھیاں پھولوں سے اکٹھا کرکے اپنے چھتوں میں موسمِ سرما کے استعمال کے لئے جمع کرتی ہیں","وہ میٹھا شیرہ جو مہال کی مکھیاں جمع کرتی ہیں"]
شہد شَہْد
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
شہد کے معنی
قند میں یہ سجل مٹھاس کہاں شہد میں یہ کنول کی باس کہاں (١٩٦٨ء، ضمیریات، ٢٨)
"کہیں تیرے بول شربت کے گھونٹ ہیں کہیں تو شہد ہے اور کہیں حنظل کہیں تو زہر ہے کہیں تریاق۔" (١٨٩٨ء، مقالاتِ حالی، ٢٠٥)
شہد کے مترادف
نوش
اری, انگبین, انگبیں, بنیخ, عسل, ماجھک, ماچھک, ماکھیوں, مدھ, مَدھ, مَدُھر
شہد کے جملے اور مرکبات
شہد پارہ, شہد خشک, شہد و شکر, شہد زبان
شہد english meaning
Honey; any thing very sweet
شاعری
- اُس کا تو شہد و شکر ہے ذوق میں ہم ناکاموں کے
لوگوں میں لیکن پوچ کہا یہ لطفِ بے ہنگام کیا - لذتِ زہر غم فرصتِ دلداراں سے
ہووے منہ میں جنھوں کی شہد و شکر مت پوچھو - شہد کہیں گے سَم کو بھی
جینا تو ہے ہم کو بھی! - کہوں وجہ دسرا کہ بھاوے کی چھال
بھی کافور ہور شہد پارہ تو گھال - نابات شکر شہد سوں میں باز تب سوں ہو رہا
اے من موھن چا کھا ہوں میں تیرے ادھر جب سوں لذیذ - فیض تاثیر ہوا یہ ہے کہ اب حنظل سے
شہد ٹیکے جو لگے نشتر زنبور عسل - لب پیو کا شہد ناب نمن
ہے دندان در‘ خوشاب نمن - ولی شیریں زبانی کی نہیں ہے چاشنی سب کو
حلاوت فہم کو میرا سخن شہد و شکر دستا - سب پہ باتیں گڑی اکھیڑیں گے
خوب سا شہد میں لتھیڑیں گے - شہد ان پہ آٹھ پہر لگائے رہے ہے گھات
قند و شکر بھی دل سے فدا ہوں دن اور رات
محاورات
- ایک آنکھ میں لہر بہر ایک میں خدا کا قہر۔ ایک آنکھ میں شہد ایک آنکھ میں زہر
- بڑا شریر (شہدہ یا شیطان) ہے
- تقریر کا شہد و شکر ہونا
- جاؤ اس کو شہد لگا کے چاٹو
- چاندنی میں شہد نہیں ہوتا
- شہد سہاگہ گھی مری دھات کا جی
- شہد لگا (کر) کے الگ ہوجانا
- شہد لگا کر چاٹنا
- گھر میں جو شہد ملے تو کاہے بن کو جائیں
- گھر میں جو شہد ہے تو کاہے کو بن جائیں