غم کے معنی
غم کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ غَم }
تفصیلات
iعربی زبان سے ماخوذ اسم ہے جو اصلاً ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق ہے اردو میں اپنے اصل معنی اور بدلی ہوئی ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ڈھانپنا","ذہنی تکلیف","روحانی کرب"]
غمم غَم
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : غَموں[غَموں (و مجہول)]
غم کے معنی
"عمل اور ایجاد کے شوق کی والہانہ تکمیل میں جو تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں. وہ غم نہیں مضرابِ زندگی ہیں۔" (١٩٨٤ء، مقاصد و مسائل پاکستان، ١٢٦)
اس کے جانے سے ہے ہر چمن محوِ غم ماند پڑنے لگی شہر کی دلکشی (١٩٨٨ء، طلوعِ افکار، کراچی، ستمبر، اکتوبر، ١٣٩)
کوئی زباں بھی سیکھیں غم اس کا کچھ نہیں ہے غم ہے یہی جو چھوڑیں مذہب کی پاسداری (١٩١٢ء، گلزار بادشاہ، ١٢٢)
گل ہاتھوں میں دیئے ترے چھلّوں کی یاد میں دل پر تمہاری چوڑیوں کے غم میں کھائے داغ (١٨٧٢ء، فیض نشان، ٩٨)
غم کے مترادف
رنج, صدمہ, گھن, سوگ, سوختگی, افسردگی, افسوس, الم, ماتم, داغ, ملال
آزردگی, افسوس, الم, اندوہ, پروا, تأسّف, ترح, جزن, چنتا, دلگیری, رنج, سوگ, غَمَ, فکر, ماتم, ملال, واویلا, کلفت, کہرام
غم کے جملے اور مرکبات
غم نگاری, غم آشام, غم نگار, غم و اندوہ, غم و غصہ, غم ہستی, غمگین, غمگینی, غم مرگ, غم ناکی, غم نامہ, غم نصیب, غم کی فوج, غم کی موج, غم گسار, غم گساری, غم گسل, غم گیتی, غم کش, غم کشی, غم کشیدہ, غم کوش, غم کوشی, غم کی پھانس, غم غلطی, غم فردا, غم کا پتلا, غم کا پہاڑ, غم کا مارا, غم کدہ, غم زدا, غم زدہ, غم سرا, غم طراز, غم غلط, غم خانہ, غم خوار, غم خوارگی, غم خواری, غم خور, غم خوردہ, غم دل, غم دوراں, غم دوست, غم دیدہ, غم رسیدہ, غم روزگار, غم پرور, غم پسند, غم پنہاں, غم جاناں, غم جاں گزا, غم حیات, غم آشنا, غم آگہی, غم آگیں, غم آگینی, غم آلود, غم بہار, غم افروز, غم اندوختہ, غم اندوز, غم انگیز, غم پرورد, غم زدی
غم english meaning
griefsorrowconcern(pl غموم ghumoom)[(Plural) ???? ghumoom|] Sorrowbereavementlamentationmourningmourning , bereavement , concern , worrysadnesswoeworry
شاعری
- حاصل ہے میر دوستی اہل بیت اگر
تو غم ہے کیا نجات کے اپنی حصول کا - غم رہا جب تک کہ دَم میں دَم رہا
دَم کے جانے کا نہایت غم رہا - دمِ صبح بزم خوش جہاں شب غم سے کم نہ تھے مہربان
کہ چراغ تھا سو تو دُود تھا‘ جو پتنگ تھا سو غُبار تھا - دل خستہ جو لہو ہوگیا‘ تو بھلا ہوا کہ کہاں تلک
کبھو‘ سوز سینہ سے داغ تھا‘ کبھو درد و غم سے فگار تھا - یہ تمہاری ان دنوں دوستاں‘ مژہ جس کے غم میں ہے خوں چکاں
وہی آفتِ دل عاشقاں‘ کسو‘ وقت ہم سے بھی بار تھا - گرمی سے میں تو آتشِ غم کی پگھل گیا
راتوں کو روتے ہی جُوں شمع گل گیا - بُوئے کباب سوختہ آئی دماغ میں
شاید جگر بھی آتشِ غم نے جلا دیا - سینہ کوبی ہے طیش سے غم ہوا
دل کے جانے کا بڑا ماتم ہوا! - ہم عشق میں نہ جانا غم ہی سدا رہے گا
دس جون جو ہے یہ مہلت سو یہاں وہا رہے گا - دل ہی کے غم میں گزری اپنی تو عمر ساری
بیمار عاشقی یہ کس دن بھلا رہے گا
محاورات
- آئے کی خوشی نہ گئے کا غم
- آتا ہو تو ہاتھ سے نہ دیجئے، جاتا ہو تو غم نہ کیجئے
- آتا ہو تو ہاتھ سے نہ دیجے۔ جاتا ہو تو اس کا غم نہ کیجے
- آتش غم میں جلانا
- آتش غم میں جلنا
- آتش غم کا بھڑکنا
- آتش غم کو بھڑکانا
- آرے (الم) غم کے چلنا
- آگ غم کی تن میں پڑنا
- ادھار دینا غم میں پڑنا ہے