غیب کے معنی
غیب کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ غَیب (ی لین) }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر ہے اردو میں ١٥٦٤ء کو دیوان حسن شوقی میں پہلی بار مستعمل ملتا ہے۔, m["اگلی دنیا","جو دکھائی نہ دے","دکھائی نہ دے یا مخفی ہو","غیر حاضر","غیر حاضری","غیر موجودگی","مخفی ہونا","مستقبل کی کوئی بات","نہ دکھائی دینا","کوئی چیز جو موجود نہ ہو"]
اسم
صفت ذاتی, اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
غیب کے معنی
[" منزل ہی غیب او دل ناکام ہو گئی پھر آج چلتے چلتے ہمیں شام ہو گئی (کیف سخن، کیفی حیدر آبادی، ٧٧)"]
["\"پھر تیسرے دن گویا غیب سے مدد وارد ہوئی\"۔ (١٩٨٨ء، نشیب، ٢٧٤)","\"ان کو مراتب واقعیہ سے موسوم کیا جاتا ہے جیسے غیب و شہادت\"۔ (١٩٢٦ء، اورینٹل کالج میگزین، مئ، ٤١)"]
غیب کے جملے اور مرکبات
غیب بینی, غیب داں, غیب دانی, غیب گوئی, غیب الغیب, غیب الغیوب, غیب امکانی
غیب english meaning
absent; invisibleunseen unapparent; hiddenconcealed; latent; mysterioussecrethiddenthe hiddenthe invisible
شاعری
- چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم‘ جسے دل کہیں سو ہری رہی - عشق نے ہم کو غیب دان کیا
یہی تحفہ، یہی سزا بھی تھی - سزا غیب نے مے سے نفرت کی دی ہے
کہ واعظ ہے دروغہ آب کاری - جو دھن پاک دامن وو بے عیب تھی
یکایک سو اس وقت پر غیب تھی - آواز غیب آئی کہ اے جان بوتراب
دربار کبریا میں بس اب آئیے شتاب - آواز غیب کان میں ائئی کہ فرق کر
وہ یوسف زلیخا تھے یہ یوسف حسین - کہاں ہے غیب دانی مجھ کو بیہات
کہوں کیونکر کہ ہے پردے کی یاں بات - حضرت نے دین و کفر کو آئینہ کردیا
ظاہر سبھوں پہ غیب کا گنجینہ کردیا - ہے غیب غیب حد ترقی حضور کی
کہتا ہوں بات جوش جنوں میں شعور کی - خرچ بالائی ملے جاتا ہے دست غیب سے
گنج باد آورد ہے اپنے اڑانے کے لیے
محاورات
- از غیب کا تھپیڑا تھپڑ/ دھکا/ ڈھیلا/طمانچہ/گولا/گھونسا
- از غیب کی لکٹی
- از غیبی تھپیڑا/تھپڑ/دھکا/ڈھیلا/طمانچہ/گولا/گھونسا/مار
- ازغیب کا (ازغیبی) تمانچا۔ تھپیڑا۔ دھکا۔ گولا یا گھونسا (مذکر) از غیبی مار
- پردۂ غیب سے (ظاہر ہونا) ظہور میں آنا
- ترغیب دینا
- چولھے آگ نہ گھڑے پانی (اوپر کی اوپر جاغیبانی)
- حاضر میں حجت نہیں غیب کی تلاش نہیں
- غیب سے دینا
- غیب گلیلا ہو جانا یا ہونا