فاصلہ کے معنی
فاصلہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ فا + صِلَہ }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق کلمہ ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٨١٠ء کو "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔, m[]
فصل فاصِلَہ
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : فاصِلے[فا + صلے]
- جمع : فاصِلے[فا + صِلے]
- جمع غیر ندائی : فاصِلوں[فا + صِلوں (و مجہول)]
فاصلہ کے معنی
"اس کے درمیان صرف پینتالیس سیڑھیوں کا فاصلہ تھا۔" (١٩٨٨ء، نشیب، ١٩٩)
ہر قدم پر خستہ پائی کے نثار منزلوں کا فاصلہ کم ہو گیا (١٩٨٢ء، چراغِ صحرا، ٦٨)
"مرزا صاحب کی وفات کے بعد دونوں تھوڑے تھوڑے فاصلے سے جوان عمر میں فوت ہو گئے۔" (١٨٩٧ء، یادگارِ غالب، ٣٧)
"خیمے کا اندرونی حصہ اوٹ (فاصلہ) سے اگل کر لیا جاتا ہے۔" (١٩٤٠ء، تمہیدی خطبے (ترجمہ)، ٨)
"مبادیات عروض میں سب فاصلہ اور وتد اصطلاحیں دراصل رُکن کی ترجمانی کرتی ہیں۔" (١٩٦٤ء، زبان کا مطالعہ، ١٥٠)
"آیت سابق کا فاصلہ میم ہے . اور فاصلہ کہتے ہیں آخری حرف کو۔" (١٩٦٤ء، کمالین، ٥٥:٢)
فاصلہ کے مترادف
قافیہ, عرصہ, دوری, فرق
بُعد, دوری, دُوری, سفر, عرصہ, فرق, مسافت, میدان
فاصلہ کے جملے اور مرکبات
فاصلہ دار, فاصلۂ صغری, فاصلۂ عظمی, فاصلۂ کبری
فاصلہ english meaning
seperating; spaceintermediate spaceinterstice
شاعری
- ذرا سا فاصلہ تھا‘ دیکھ راستے کا کمال
طویل ہوگیا میرا سفر زیادہ ہی - فاصلہ اپنی جگہ قائم ہے
تیرے نزدیک کہاں تک آؤں - فاصلہ قرب بنا‘ قرب بھی ایسا کہ مجھے
دل کی دھڑکن ترے قدموں کی صدا لگتی ہے - فاصلہ کیوں درمیاں ہے‘ زندگی‘ اے زندگی!
میں کہاں ہوں تُو کہاں ہے زندگی‘ اے زندگی - اے رسم حیات تھک گیا ہوں
اب کتنے نفس کا فاصلہ ہے - مرکز سے دائرے کا وہی فاصلہ رہا
سر پر تھا آسمان‘ گئے جس دیار میں - فرق
کہا اُس نے دیکھو‘
’’اگر یہ محبت ہے‘ جس کے دو شالے
میں لپٹے ہوئے ہم کئی منزلوں سے گزر آئے ہیں!
دھنک موسموں کے حوالے ہمارے بدن پہ لکھے ہیں!
کئی ذائقے ہیں‘
جو ہونٹوں سے چل کر لہُو کی روانی میں گُھل مِل گئے ہیں!
تو پھر اُس تعلق کو کیا نام دیں گے؟
جو جسموں کی تیز اور اندھی صدا پر رگوں میں مچلتا ہے
پَوروں میں جلتا ہے
اور ایک آتش فشاں کی طرح
اپنی حِدّت میں سب کچھ بہاتا ہُوا… سنسناتا ہُوا
راستوں میں فقط کُچھ نشاں چھوڑ جاتا ہے
(جن کو کوئی یاد رکھتا نہیں)
تو کیا یہ سبھی کچھ‘
اُنہی چند آتش مزاج اور بے نام لمحوں کا اک کھیل ہے؟
جو اَزل سے مری اور تری خواہشوں کا
انوکھا سا بندھن ہے… ایک ایسا بندھن
کہ جس میں نہ رسّی نہ زنجیر کوئی‘
مگر اِک گِرہ ہے‘
فقط اِک گِرہ ہے کہ لگتی ہے اور پھر
گِرہ در گِرہ یہ لہو کے خَلیّوں کو یُوں باندھتی ہے
کہ اَرض و سَما میں کشش کے تعلق کے جتنے مظاہر
نہاں اور عیاں ہیں‘
غلاموں کی صورت قطاروں میں آتے ہیں
نظریں جُھکائے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں
اور اپنے رستوں پہ جاتے نہیں
بات کرتے نہیں‘
سر اُٹھاتے نہیں…‘‘
کہا میں نے‘ جاناں!
’’یہ سب کُچھ بجا ہے
ہمارے تعلق کے ہر راستے میں
بدن سنگِ منزل کی صورت کھڑا ہے!
ہوس اور محبت کا لہجہ ہے یکساں
کہ دونوں طرف سے بدن بولتا ہے!
بظاہر زمان و مکاں کے سفر میں
بدن ابتدا ہے‘ بدن انتہا ہے
مگر اس کے ہوتے… سبھی کُچھ کے ہوتے
کہیں بیچ میں وہ جو اِک فاصلہ ہے!
وہ کیا ہے!
مری جان‘ دیکھو
یہ موہوم سا فاصلہ ہی حقیقت میں
ساری کہانی کا اصلی سِرا ہے
(بدن تو فقط لوح کا حاشیہ ہے)
بدن کی حقیقت‘ محبت کے قصے کا صرف ایک حصہ ہے
اور اُس سے آگے
محبت میں جو کچھ ہے اُس کو سمجھنا
بدن کے تصّور سے ہی ماورا ہے
یہ اِک کیفیت ہے
جسے نام دینا تو ممکن نہیں ہے‘ سمجھنے کی خاطر بس اتنا سمجھ لو
زمیں زادگاں کے مقدر کا جب فیصلہ ہوگیا تھا
تو اپنے تحفظ‘ تشخص کی خاطر
ہر اک ذات کو ایک تالہ ملا تھا
وہ مخصوص تالہ‘ جو اک خاص نمبر پہ کُھلتا ہے لیکن
کسی اور نمبر سے ملتا نہیں
تجھے اور مجھے بھی یہ تالے ملے تھے
مگر فرق اتنا ہے دونوں کے کُھلنے کے نمبر وہی ہیں
اور ان نمبروں پہ ہمارے سوا
تیسرا کوئی بھی قفل کُھلتا نہیں
تری اور مری بات کے درمیاں
بس یہی فرق ہے!
ہوس اور محبت میں اے جانِ جاں
بس یہی فرق ہے!! - سفر جاری اگر ہے رہنماؤ!
تو پھر کیوں فاصلہ گھٹتا نہیں ہے؟ - جو تم چلو تو ابھی دو قدم میں کٹ جائے
جو فاصلہ مُجھے صدیوں میں پار کرنا ہے - چھوڑ آیا ہوں زمین و آسماں
فاصلہ اب اور کتنا رہ گیا
محاورات
- ایک تیر پر تاب فاصلہ تھا
- نامردی و مردی قدمے فاصلہ دارد