فرق کے معنی
فرق کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ فَرْق }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے جو اُردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم بھی استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٥٨٢ء کو |کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["جدا کرنا","بالوں کی مانگ","بیگانہ پن","کسی چیز کا اوپر کا حصہ"]
فرق فَرْق
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
فرق کے معنی
التیام و فرق سے زخموں کی یہ ثابت ہوا جو مزا ہے وصل میں زنہار ہجرت میں نہیں (١٩٠٠ء، نظمِ دل امروز، ٢٢١)
رہ گیا جب دو قدم کے فرق پر ساحل ظہیر کشتئ عمرِ رواں کب آ کے طوفانی ہوئی (١٩١١ء، دیوانِ ظہیر دہلوی، ٢)
"جتنے بھی فرق معاشرہ کے تعلقات میں دکھائی دیتے ہیں ان کو ناانصافی اور ظلم گردانا جاتا ہے۔ (١٩٨٤ء، مقاصد وسائل پاکستان، ١٥٣)
ایک روضے میں محوِ خواب ہیں آج بھی فرق پر دونوں کے "تاج" (١٩٨٣ء، دامنِ یوسف، ١١٤)
فرق Diference وہ خصوصیت ہے جس سے جنس اور اس کی دونوں نوعوں کے درمیان تمیز کی جاتی ہے، فرق کو جنس بڑھانے سے نوع پیدا ہوتی ہے۔ (١٩٧٠ء، نظامِ کتب خانہ، ٢٩٢)
خاک تیرے فرق پر اے بے مرّوت آسماں ایک قطرۂ آب کو ابن علی دیتا ہے جاں (١٨١٠ء، کلیاتِ میر،١٢١٦)
" ان نکتہ چینیوں سے نسیم کی شہرت میں فرق نہیں آ سکا۔" (١٩٢٦ء، مضامین جکست، ١٤٤)
"اگر دو چار گھنٹے میں نہ سوئیں گے تو صحت مفں فرق آنے کا اندیشہ ہے۔" (١٩٣٠ء، بیگموں کا دربار، ٢٢)
"ان دو اسباب کی بنا پر رابطہ قائم ہونے اور زیادہ سے زیادہ کرنٹ کی ہیئت (Phase) کے درمیان کچھ فرق (LAG) پڑ جاتا ہے۔ (١٩٦٧ء، آواز، ٤١٠)
دَنداں ترے مستی ہیں ایسے نگاربند جُوں فرقِ سر میں سلک گہریوں قطار بند (١٧٩٢ء، محب دہلوی، د، ٢٣٣:١)
فرق کے مترادف
آگے, تجاوز, تفریق, پھیر, فاصلہ, امتیاز
اختلاف, الگ, بُعد, بیگانگی, تفاوت, تفریق, تقسیم, جدا, جدائی, چوٹی, خلل, دوری, سر, علیحدگی, غیریت, فاصلہ, فَرَقَ, مختلف, نقص, کمی
فرق کے جملے اور مرکبات
فرق مراتب, فرق الجمع, فرق الوصف, فرق اول, فرق ثانی, فرق عظیم
فرق english meaning
differencedistancedistinctionseperationinterruptiondispersion; the headthe top of any thingsummitbrow foreheadchangedeteriorationestrangementintervening spaceparting of the hairpartitionseparation
شاعری
- فرق یار وغیر میں بھی اے بتاں کچھ چاہئے
اتنی ہٹ دھرمی بھی کیا انصاف فرمایا کرو - فروغ کچھ نہیں دعویٰ کو صبح صادق کے
شب فرق کو کب ہے سحر دروغ دروغ - زمانہ تجھے دیکھ لے بھی تو کیا ہے
بڑا فرق ہے دیکھنے دیکھنے میں - عشق کی چوٹ تو لگتی ہے ہر اک کے دل پر
ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے - لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
اک بے تکلفی کی ہنسی اک حیا کے ساتھ - مرے ہم سفر‘ تجھے کیا خبر!
یہ جو وقت ہے کسی دُھوپ چھاؤں کے کھیل سا
اِسے دیکھتے‘ اِسے جھیلتے
مِری آنکھ گرد سے اَٹ گئی
مِرے خواب ریت میں کھوگئے
مِرے ہاتھ برف سے ہوگئے
مِرے بے خبر‘ ترے نام پر
وہ جو پُھول کھلتے تھے ہونٹ پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر‘
وہ نہیں رہے
وہ نہیں رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں وہ بکھر گیا
وہ ہَوا چلی
کسی شام ایسی ہَوا چلی
کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں‘ وہ گرادیئے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر‘ وہ اُڑا دیئے
وہ جو راستوں کا یقین تھے
وہ جو منزلوں کے امین تھے
وہ نشانِ پا بھی مِٹا دیئے!
مرے ہم سفر‘ ہے وہی سفر
مگر ایک موڑ کے فرق سے
ترے ہاتھ سے مرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اُسے ناپتے‘ اُسے کاٹتے
مرا سارا وقت نکل گیا
تو مِرے سفر کا شریک ہے
میں ترے سفر کا شریک ہوں
پہ جو درمیاں سے نکل گیا
اُسی فاصلے کے شمار میں
اُسی بے یقیں سے غبار میں
اُسی رہگزر کے حصار میں
ترا راستہ کوئی اور ہے
مرا راستہ کوئی اور ہے - فرق
کہا اُس نے دیکھو‘
’’اگر یہ محبت ہے‘ جس کے دو شالے
میں لپٹے ہوئے ہم کئی منزلوں سے گزر آئے ہیں!
دھنک موسموں کے حوالے ہمارے بدن پہ لکھے ہیں!
کئی ذائقے ہیں‘
جو ہونٹوں سے چل کر لہُو کی روانی میں گُھل مِل گئے ہیں!
تو پھر اُس تعلق کو کیا نام دیں گے؟
جو جسموں کی تیز اور اندھی صدا پر رگوں میں مچلتا ہے
پَوروں میں جلتا ہے
اور ایک آتش فشاں کی طرح
اپنی حِدّت میں سب کچھ بہاتا ہُوا… سنسناتا ہُوا
راستوں میں فقط کُچھ نشاں چھوڑ جاتا ہے
(جن کو کوئی یاد رکھتا نہیں)
تو کیا یہ سبھی کچھ‘
اُنہی چند آتش مزاج اور بے نام لمحوں کا اک کھیل ہے؟
جو اَزل سے مری اور تری خواہشوں کا
انوکھا سا بندھن ہے… ایک ایسا بندھن
کہ جس میں نہ رسّی نہ زنجیر کوئی‘
مگر اِک گِرہ ہے‘
فقط اِک گِرہ ہے کہ لگتی ہے اور پھر
گِرہ در گِرہ یہ لہو کے خَلیّوں کو یُوں باندھتی ہے
کہ اَرض و سَما میں کشش کے تعلق کے جتنے مظاہر
نہاں اور عیاں ہیں‘
غلاموں کی صورت قطاروں میں آتے ہیں
نظریں جُھکائے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں
اور اپنے رستوں پہ جاتے نہیں
بات کرتے نہیں‘
سر اُٹھاتے نہیں…‘‘
کہا میں نے‘ جاناں!
’’یہ سب کُچھ بجا ہے
ہمارے تعلق کے ہر راستے میں
بدن سنگِ منزل کی صورت کھڑا ہے!
ہوس اور محبت کا لہجہ ہے یکساں
کہ دونوں طرف سے بدن بولتا ہے!
بظاہر زمان و مکاں کے سفر میں
بدن ابتدا ہے‘ بدن انتہا ہے
مگر اس کے ہوتے… سبھی کُچھ کے ہوتے
کہیں بیچ میں وہ جو اِک فاصلہ ہے!
وہ کیا ہے!
مری جان‘ دیکھو
یہ موہوم سا فاصلہ ہی حقیقت میں
ساری کہانی کا اصلی سِرا ہے
(بدن تو فقط لوح کا حاشیہ ہے)
بدن کی حقیقت‘ محبت کے قصے کا صرف ایک حصہ ہے
اور اُس سے آگے
محبت میں جو کچھ ہے اُس کو سمجھنا
بدن کے تصّور سے ہی ماورا ہے
یہ اِک کیفیت ہے
جسے نام دینا تو ممکن نہیں ہے‘ سمجھنے کی خاطر بس اتنا سمجھ لو
زمیں زادگاں کے مقدر کا جب فیصلہ ہوگیا تھا
تو اپنے تحفظ‘ تشخص کی خاطر
ہر اک ذات کو ایک تالہ ملا تھا
وہ مخصوص تالہ‘ جو اک خاص نمبر پہ کُھلتا ہے لیکن
کسی اور نمبر سے ملتا نہیں
تجھے اور مجھے بھی یہ تالے ملے تھے
مگر فرق اتنا ہے دونوں کے کُھلنے کے نمبر وہی ہیں
اور ان نمبروں پہ ہمارے سوا
تیسرا کوئی بھی قفل کُھلتا نہیں
تری اور مری بات کے درمیاں
بس یہی فرق ہے!
ہوس اور محبت میں اے جانِ جاں
بس یہی فرق ہے!! - فرق سائل کی ہے صدا میں کچھ!
یاکمی ظرفِ بادشاہ میں ہے؟ - تمنا اور حسرت میں ہے فرق اظہار کا، یعنی
جو شعلہ جل نہیں سکتا اُسے پتھر میں رہنا ہے - امجد اگر وہ دورِ جنوں جاچکا، تو پھر
لہجے میں کیوں یہ فرق کسی نام پر ہوا!
محاورات
- آب و خورش میں فرق آنا
- آبرو میں فرق آنا
- آبرو میں فرق ڈالنا
- آسمان زمین میں فرق نہ رہنا
- آسمان زمین کا فرق
- اچھے برے میں چار انگل کا فرق ہے
- اشغال میں فرق آنا
- اصل اصل (ہی) ہے نقل نقل (ہی) ہے۔ اصل نقل میں (بڑا یا زمین آسمان کا ) فرق ہے۔ اصل کی بات نقل میں نہیں
- انیس بیس (کا فرق ہونا)
- انیس بیس کا فرق