فوج کے معنی
فوج کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ فَوج (و لین) }
تفصیلات
iعربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ جو اردو میں اپنے اصل معنی کے ساتھ بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["پھیلانا خوشبو","مجمع آدمیوں کا"]
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : فَوجیں[فَو + جیں (ی مجہول)]
- جمع استثنائی : اَفْواج[اَف + واج]
- جمع غیر ندائی : فَوجوں[فو (و لین) + جوں (و مجہول)]
فوج کے معنی
"فوج میں جنرل موسٰی سمیت کئی جرنیل تشویش میں پڑ گئے۔" (١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ٨٨٠)
فوج کے مترادف
آرمی, سینا, سپاہ, جند
آرمی, انبوہ, جتھا, جُند, جوخ, جُھنڈ, دَل, سپاہ, سَینا, عسکر, فَوَجَ, گردہان, گروہ, گرہ, گرہان, لشکر, مجمع, ٹولا, کٹک, ہجوم
فوج کے جملے اور مرکبات
فوج باختہ, فوج باقاعدہ, فوج بحری, فوج جنگی, فوج خاصہ, فوج دار, فوج دار خاں, فوج داری, فوج رکاب, فوج ظفر موج, فوج در فوج, فوج قاہرہ
فوج english meaning
(pl افواج afvaj)(Plural) of افواج A hosta crowd (of men)a multitudean armyarmycrowd (of)host (of)
شاعری
- وو شاہ فوج خوبان اس شہر میں جب آوے
آباد ہو مرا دل دارالسرور ہوئیگا - جب سیں لایا عشق نے فوج جنوں
عقل کے لشکر میں بھاگا بھاگ ہے - فوج دشمن میں برستی آگ تھی
ہر طرف لشکر میں بھاگا بھاگ تھی - رعب اس کا نہ چھایا ہوا تھا فوج میں کس پر
بھاگڑ میں یہ گرتا تھا جو اس پہ تو وہ اس پر - بسا چوں فوج یا جوج و شکم عوج
بمن و ابستگان در بھوک رہتا - افسران فوج بھیڑوں کی طرح تھے ہانکتے
اور سپاہی پیٹ کے دھندے میں تھے مصروف یاں - یہ فوج حوادث سے ہیں اڑنے والے
یہ غیروں کی ہیں آگ میں پڑنے والے - محو رجز تھے جب تو لرزتا تھا بن تمام
آگے بڑھے تو ہٹ گئی دہشت سے فوج شام - اے دل یہ کس سے بگڑی کہ آتی ہے فوج اشک
لخت جگر کی نعش کو آگے دھرے ہوئے - فوج اعداد سے وہ غازی صفت جو نکلے
صف مژگان کو الٹتے ہوئے آنسو نکلے
محاورات
- آدھے میاں محمدی‘ آدھے میں سارا گاؤں۔ آدھے میاں موج‘ آدھے میں ساری فوج
- اندھا ہاتھی اپنی فوج ہی کو مارے
- اندھا ہاتھی اپنی ہی فوج کو مارے
- ساری (١) فوج میں ایک ہی / کوئی سورما ہوتا ہے
- ساری فوج میں ایک ہی (کوئی) سورما ہوتا ہے
- فوج بے وکیل ، صاحب بے فیل
- فوج غم و الم کی دل پر چڑھائی ہونا
- فوج کا آگا برات کا پیچھا بھاری ہوتا ہے
- فوج کا گھونگھٹ کھانا
- فوج کی اگاڑی آندھی کی پچھاڑی