قاصد کے معنی
قاصد کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ قا + صِد }ارادہ کرنے والا، ایلچی
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ عربی سے اردو میں بلحاظ معنی و ساخت بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["آنا۔ بھیجنا۔ روانہ کرنا وغیرہ کے ساتھ","پیغام رساں","پیغام گزار","چٹھی رساں","راہ گر","رہ انجام","رہ نورد","قصد کرنیوالا","نامہ آدر","نامہ بر"],
قصد قاصِد
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد ), اسم
اقسام اسم
- جنسِ مخالف : قاصِدَہ[قا + صِدَہ]
- جمع ندائی : قاصِدو[قا + صِدو (و مجہول)]
- جمع غیر ندائی : قاصِدوں[قا + صِدوں (و مجہول)]
- لڑکا
قاصد کے معنی
میرا غم دفع کرنے کوں وو عالی جاہ قاصد نئیں توں آوے کیوں میرے نزدیک کچھ گمراہ قاصد نئیں (١٧٠٧ء، کلیاتِ ولی، ١٦٤)
"سٹی مجسٹریٹ کا قاصد جلسہ کے اندر آیا۔" (١٩٨٤ء، مقاصدو مسائلِ پاکستان، ٨٧)
قاصد کے مترادف
پیامی, پیام بر, رسول, ڈاکیا, مطمئن, مکتفی
آدرندہ, ایلچی, برید, پایک, پیامبر, پیامی, پیغامبر, پیون, پیک, چپڑاسی, دُدت, رسول, سفیر, فرستادہ, قَصَدَ, ڈاکیا, کبوتر, ہرکارہ
قاصد english meaning
a messengercourieran expressa postmanletter-carrierenvoy. [A~قصد]messengerQasid
شاعری
- قاصد کو دے کے خط نہیں کچھ بھیجنا ضرور
جاتا ہے اب تو جی ہی ہمارا چلا ہوا - بالفعل تو ہے قاصد محو اس خط و گیسو کا
تک چیتے تو ہم پوچھیں کیا لے کے خبر آیا - کیا اور لکھیئے کیسی خجالت مجھے ہوئی
سر کو جھکائے آیا جو قاصد چلا ہوا - قاصد جو تھا بہار کا نامعتبر ہوا
گلشن میں بندوبست برنگ دگر ہوا - قاصد کرکے دیکھیں گے
اب کے چشمِ نم کو بھی - میں بے پر ہونگی بے بس تو ہے پردار
مرا قاصد تو ہیں تجھ پر مرا بھار - سراغ اس کا نہ پایا کوہ وہ صحرا میں بھی سر پٹکا
خدا جانے مرا قاصد کہاں بھولا کہاں بھٹکا - سراسیمہ پریشاں مضطرب آشفتہ و حیراں
مر قاصد تو آیا لیکن آیا کس تباہی ہے - پاسخ نامہ تو کیسا یہ غنیمت ہے بہت
جان قاصد کی وہاں سے جو سلامت آئی - کیا دم کا بھروسہ ہے پھر آئے کہ نہ آئے
جاتا ہے جو قاصد کو تو جائےمرے آگے