لرزہ کے معنی
لرزہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ لَر + زَہ }
تفصیلات
iاصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["امن چین","تھر تھر کانپنا","وہ کپکپی جو خوف یا بیماری کی وجہ سے ہوتی ہے","ہالن ڈولن"]
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
لرزہ کے معنی
"اس کا نام ہی پرانے زمانے میں کشمیریوں میں لرزہ پیدا کرتا تھا۔" (١٩٨٢ء، آتش چنار، ٣٧٤)
"جب زمین اور پہاڑوں میں لرزہ ہو گا۔" (١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٦٨٦:٤)
"مچھر کی شامت آجائے . کم بخت باری کے لرزے میں چل بسے گا۔" (١٩٦١ء، سات سمندر پار، ٢٨)
لرزہ کے مترادف
سنسناہٹ, سنسنی
ارتعاش, بھونچال, تھراہٹ, تھرتھراہٹ, جاڑا, جُر, جنبش, دھڑکن, رعشہ, زلزلہ, لرزش, کپکپاہٹ, کپکپی, کپکی
لرزہ کے جملے اور مرکبات
لرزہ انگیز, لرزہ خیز
لرزہ english meaning
shakingquivering; quake; earthquake; tremorcold fit of an ague
شاعری
- دابے ہیں کوہ اس لیے سارے زمین کو
لرزہ چڑھا ہے خوف کے مارے زمین کو - زینب نے آکے طیش میں جس وقت یہ کہا
لرزہ خدا کے عرش کو اس وقت آگیا - محشر بھی مگر کوچہ قاتل کا ہے اک نام
ہے کون جو یاں لرزہ بر اندام نہیں ہے - چادر سے ابر کے بھی حرارت ہے مہر کو
لرزہ چڑھا جو اوڑھے ہیں فرغل علی الصباح - بفرمان ید اللہ روز رجعت کھنچ کے آیا تھا
پڑا ہے آج تک لرزہ سا جسم مہر تاباں پر