لہر کے معنی
لہر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ لَہْر (فتحہ ل مجہول) }
تفصیلات
iاصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٤١ء کو "دیوان شاکر ناجی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(امر) لہرنا کا","ایکھ کے پودے","چھوٹے چھوٹے گنے","لہریا وہ گوٹے یا لچکا وغیرہ کی لہر دار ٹنکائی جو رضائی یا دوپٹوں پر کی جاتی ہے","موجوں کا تلاطم","وہ اعضا کی جنبش جو کتے یا سانپ کے کاٹے ہوئے کے جسم میں ہوتی ہے","وہ سلسلہ آب جو ہوا سے یا کسی چیز کے پانی میں گرنے سے پیدا ہوتا ہے","کسی لچکدار چیز کا لہرانا","کشیدے کی دھاری","ہرے پودوں کی جنبش"]
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : لَہْریں[لَہ + ریں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : لَہْروں[لَہ + روں (و مجہول)]
لہر کے معنی
"یکبارگی زور کی لہر آئی اور اسے اچھال کر کنارے پر ڈالتی پلٹ گئی۔" (١٩٩٠ء، بھولی بسری کہانیاں، مصر، ١٦٤:١)
کبھی خوشبو کی اگر لہر سی پاتا ہوں فضا میں تو سمجھتا ہوں کہ تم، بال سکھاتے ہو ہوا میں (١٩٢٤ء، افکار سلیم، ١٨١)
"بے اعتمادی کی ایک پوشیدہ لہر برابر رواں رہی۔" (١٩٨٦ء، برصغیر میں اسلامی کلچر، ٥٠)
نشۂ حسن کی یہ لہر الٰہی توبہ تشنہ کام آنکھوں ہی آنکھوں میں پئے جاتے ہیں (١٩٥٧ء، یگانہ، گنجینہ، ٥١)
"حفیظ کے کلام میں رنگینی کی یہ لہر عموماً موجود نہیں۔" (١٩٧٦ء، سخن ور نئے اور پرانے، ٢١١)
آب فرات کی نہیں اب تشنگی میں لہر جنت میں شہد و شیر کی خالق دکھائے نہر (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٢٤١:١)
کہاں سے آتی ہے رونے کی لہر خاطر میں برنگ موج اگر روح بیقرار نہیں (١٨٩٦ء، تجلیات عشق، ١٥٧)
"زہر اتنا قاتل تھا کہ دوبارہ لہر نہ آئی۔" (١٩٣٦ء، پریم چند، پریم چالیسی، ١٢:١)
"موزیک پلیٹ P پر ہر دانہ اپنی برق لہر (Electric Pulse) پیدا کرتا ہے۔" (١٩٧٠ء، جدید طبیعیات، ٤٤٨)
"صرف اس کے تقریری پہلو کے سامنے رکھا ہے اور اس سلسلے میں سر لہر پر بطور خاص زور دیا ہے۔" (١٩٨٨ء، نئی اردو قواعد، ١٣)
"دائیں طرف کا حاشیہ کم چوڑا ہے، بائیں حاشیے سے تقریباً آدھا ہے، اس میں لہر یا بیل بنائی گئی ہے لہر کے پیٹے میں ڈنڈی اور پھول بنائے گئے ہیں۔" (١٩٨٩ء، قومی زبان، کراچی، فروی، ٩)
"تاگے سے لہر بنائی مگر تیپچی کی اس طرح کہ خانہ کمتی بڑھتی نہ ہو۔" (١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٧٣)
سنبل کی لہر سے نہ رہے پھر ہمیں مطلب یکدست جو تم کا کل خمدار دکھاؤ (١٨٤٠ء، کلیات ظفر، ١٩٣:١)
"درد کے کلام میں سطح کے نیچے ایک دبی ہوئی لہر اور بھی نظر آتی ہے۔" (١٩٧٦ء، سخن ور نئے اور پرانے، ٣)
لہر کے مترادف
رو, کرنٹ[1], امنگ, زبانہ, موج
امنگ, بیخودی, ترنگ, جلن, جوش, خرمستی, خواہش, خون, خیال, دھیان, دیوانگی, سودا, سوزش, شوق, شہوت, موج, ولولہ, وہم, ٹیس, یاد
لہر کے جملے اور مرکبات
لہر بہر, لہرپٹور, لہرچال, لہردار
شاعری
- قسمت تو دیکھ شیخ کو جب لہر آئی تب
دروازہ شیرہ خانے کا معمور ہوگیا - ابر مت گورِ غریباں پہ برس غافل آہ
ان دل آزردوں کے جی میں بھی لہر آوے گی - دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی - کون سا بھولا بسرا غم تھا جو آیا ہے یاد
رہ رہ کر پھر دل میں اٹھے درد کی میٹھی لہر - افکار سے ہشیار کہ یہ وقت کی موجیں
پیغام بدل دیتی ہیں خود لہر بدل کر - جانے کس لہر میں تھا میں سرشار!
جانے کس موج میں ہَرے تم تھے! - گُلوں پہ ڈولتا پھرتا تھا اوس کی صورت!
صدا کی لہر تھا ور نغمگی میں رہتا تھا - جانے کس لہر میں تھا میں سرشار!
جانے کس موج میں ہرے تم تھے! - اک خوابِ ہنر کی آہٹ سے کیا آگ لہو میں جلتی ہے
کیا لہر سی دل میں چلتی ہے! کیا نشہ سر میں رہتا ہے - لہر ایسی چلی ہے بستی میں
کوئی بھی سر اٹھا نہیں سکتا
محاورات
- آواز کا لہرا جانا یا لہرانا
- اب رنگ لائی گلہری
- اوچھا جی رنگ لائی گلہری
- اور رنگ لائی گلہری
- ایک آنکھ میں لہر بہر ایک آنکھ میں خدا کا قہر
- ایک آنکھ میں لہر بہر ایک میں خدا کا قہر۔ ایک آنکھ میں شہد ایک آنکھ میں زہر
- پانی کی لہریں گننا
- پرچم اڑانا (یا لہرانا یا بلند کرنا)
- تلواروں کا لہریں لینے لگنا
- دل میں لہر آنا