مال
{ مال }
تفصیلات
iعربی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٠٣ء، کو "نو سرہار(اردو ادب سہ ماہی، علی گڑھ)" میں مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
مال کے معنی
"نیچے احاطے میں ایک اندھا کنواں ہے کہا جاتا ہے کہ اسمگلر اپنا مال لا کر اس میں چھپا دیتے ہیں"۔ (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٤٧)
"ہم اس مجموعے کو اپنا مال سمجھ کر اپنے ذہن میں رکھ سکتے ہیں" (١٩٦٣ء، تجزیۂ نفس، ١١٥)
"ہمارے یہاں دیوانی، فوجداری اور مال کے سب قانون ہیں"۔ (١٩١٣ء، چھلاوا، ٧)
"مال دیکھا کر مجھ سے اس کی قیمت لی اور چلا گیا چند ہی لمحوں بعد فضا میں ایک آوازہ گونجا" (١٩٧٥ء، نظمانے ١٠٢)
"اگر شہریار کے واسطے بہتری ہو تو میں جان لگا دوں، مال کیا مال ہے" (١٩٠٢ء، طلسم نو خیز جمشیدی، ٧٧٦:٣)
دل سی شے اور اک نگدناز کے عوض! بکتا ہے مال چشم خریدار دیکھ کر (١٩٤٢ء، سنگ وخشت، ٩٣)
"اس نے سفارش لکھنے والے کو فحش گالیاں دینی شروع کیں کہ مال(یعنی رسپ) موجود نہیں"۔ (١٩١١ء، روزنامچہ سیاحت، ١٥:١)
فاقہ کشوں کی فکر چھوڑ خوب ڈنر اڑائے جا کھانے دے کھاتے ہیں جو غم تو یوہنی مال کھائے جا (١٩٤٢ء، سنگ وخشت، ٦)
اچھے اچھے مال ہیں پیش نظر آئے ہوئے گورے گورے گال ہیں چاہت کو چمکائے ہوئے (١٨٨٩ء، لیل و نہار، ٤٤)
"اپنا تمام مال اسباب اس میں جھونک کر اپنی بہو بیٹیوں کو بلا کر کہا"۔ (١٩٣٩ء، افسانہ پدامنی، ١٢٤)
"جس شہر میں مینہ نہ برسا اور کال ہوا، اسی وقت اور شہریوں سے جہاں غلہ سستا ہے مال بھر لائے"۔ (١٨٦٤ء، نصیحت کا کرن پھول ٧٣)
"دوکانداروں اور آنے والیوں کے باہمی برتائو اور ان کی حالت اور مال وغیرہ کو دیکھ کے کوشک میں واپس آئی" (١٩٢٥ء، مینا بازار، شرر، ٦١)
دیکھو بحث معاملات کا حال حل کیے مال کعب و کعب اعلل (١٨٨٧ء، ساقی ناہ شقشقیہ، ٣٥)
جس طرح سے رہے ہے مال کے اوپر کالا یوں رہے زلف ترے منہ کے اوپر مار کے پیچ (١٨٠١ء، گلشن ہند(مضمون)، ١٦١)
"اس میں کچھ اور مال بھی لگتا ہے جو منڈی میں کمیاب ہے" (١٩٩٣ء، ماہنامہ افکار، کراچی، دسمبر، ٢٠)
مترادف
سامان, ثروت, سرمایہ, جنس, دولت, دھن, بضاعت, دام[2], نصاب, نعمت
مرکبات
مال و منال, مال مویشی, مال متاع, مال غنیمت, مال گاڑی, مال گزار, مال گزاری, مال و زر, مال و متاع, مال و متال, مال داری