ماں کے معنی
ماں کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ ماں }
تفصیلات
iپراکرت زبان سے ماخوذ اسم |مائی| کا محرف ہے۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٠٣ء کو "شرحِ تمہیدات ہمدانی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(ھ) مجھے","بیچ میں","دیکھیے ما بمعنی والدہ امّاں کا مخفف","سوکھي ہوئي لاش","مسالا لگی اور سوکھی ہوئی لاش","میاں کا مخفف","والدہ کو پکارنے کا لفظ","وہ عورت جس نے جنا ہو"]
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : مائیں[ما + ایں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : ماؤں[ما + اوں (و مجہول)]
ماں کے معنی
"تم . ابنارمل بچوں کی ماں بننا چاہتی ہو۔" (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ١٢٧)
"جب وہ ماں سے کہتے کہ ماں تعو بھی کھا تو جواب دیتی پڑے چولھے میں تم تو کھالو۔" (١٩٢٥ء، لطائفِ عجیبہ، ٢٥:٣)
"گھریلو مکھی کو لیجیے، یہ بیماریوں کی ماں ہے۔" (١٩٢٤ء، حشرات الارض اور وہیل، ١٦)
ماں کے مترادف
ام, امی, مادر, ماما[2], والدہ
اصل, اُم, اماں, اَمّی, امی, اندر, بھیتر, جننی, ماتا, ماتر, مادر, ماماں, ماں, ممی, والدہ
ماں کے جملے اور مرکبات
ماں جائی[1]
ماں english meaning
(dial.) Mummymommothermother [~???]
شاعری
- مایوسِ وصل اُس کے کیا سادہ مُرد ماں ہیں
گُزرے ہے میر اُن کو امیدوار ہر شب - شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا - کلی کلی میں ہے دھرتی کے دودھ کی خوشبو
تمام پھول اُسی ایک ماں کے جائے ہیں - پروین کے ’’گِیتو‘‘ کے لیے ایک نظم
ہاں مری جان‘ مِرے چاند سے خواہر زادے!
بُجھ گئیں آج وہ آنکھیں کہ جہاں
تیرے سپنوں کے سِوا کُچھ بھی نہ رکھا اُس نے‘
کِتنے خوابوں سے‘ سرابوں سے الُجھ کر گُزری
تب کہیں تجھ کو‘ ترے پیار کو پایا اُس نے
تو وہ ‘‘خُوشبو‘‘تھا کہ جس کی خاطر
اُس نے اِس باغ کی ہر چیز سے ’’انکار‘‘ کیا
دشتِ ’’صد برگ‘‘ میں وہ خُود سے رہی محوِ کلام
اپنے رنگوں سے تری راہ کو گلزار کیا
اے مِری بہن کے ہر خواب کی منزل ’’گِیتو‘‘
رونقِ ’’ماہِ تمام‘‘
سوگیا آج وہ اِک ذہن بھی مٹی کے تلے
جس کی آواز میں مہتاب سفر کرتے تھے
شاعری جس کی اثاثہ تھی جواں جذبوں کا
جس کی توصیف سبھی اہلِ ہُنر کرتے تھے
ہاں مِری جان‘ مِرے چاند سے خواہر زادے
وہ جِسے قبر کی مٹّی میں دبا آئے ہیں
وہ تری ماں ہی نہ تھی
پُورے اِک عہد کا اعزاز تھی وہ
جِس کے لہجے سے مہکتا تھا یہ منظر سارا
ایسی آواز تھی وہ
کِس کو معلوم تھا ’’خوشبو‘‘ کی سَفر میں جس کو
مسئلہ پُھول کا بے چین کیے رکھتا ہے
اپنے دامن میں لیے
کُو بَکُو پھیلتی اِک بات شناسائی کی
اِس نمائش گہ ہستی سے گُزر جائے گی
دیکھتے دیکھتے مٹی مین اُتر جائے گی
ایسے چُپ چاپ بِکھر جائے گی - ماں کی آنکھیں چراغ تھیں جس میں
میرے ہمراہ وہ دعا بھی تھی - خبر یہ ہوئی جب کہ ماں باپ کو
کیا گم انہوں نے وہیں آپ کو - گرمی میاں ماں بچاۓ تن کی بھاپ سے
وہ پسلیاں شکستہ ہوں گھوڑوں کی ٹاپ سے - منہ موڑ کر جو ماں سے چلے میرے ماہرو
کیا خاک میں ملاؤگے دکھیا کی آرزو - تب آرس سلکھن کے ماں باپ سنگ
کہیا یوں سو خلوت میں ہوبے درنگ - اناتمنا سوں کیا کوں ماں مجھے کہتے شرم آئی
چھے مہینے کے بھتر پیروکوں پاڑی آس کاٹی نے
محاورات
- آب بہ ریسماں بستن
- آسماں کردو بر ہرآنچہ ہمت بستی
- آنکھ پھڑکے دہنی ماں ہے کہ بہنی۔ آنکھ پھڑکے باﺋیں بیر ملے کہ ساﺋیں
- آنکھوں میں سماں بندھنا۔ پھرنا یا چھانا
- ابھی تو تم ماں کا دودھ پیتے ہو
- اپنا مکان کوٹ سماں
- ادھار کی کیا ماں مری ہے
- ازکوزہ ہماں بروں تراود کہ در اوست
- اس پرکھا کی بات پر نا بھروسہ رکھ۔ بربر بولے جھوٹ جو دن بھرماں سولکھ
- الف بے ہوا ماں چیل باپ کوا