مد کے معنی
مد کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ مَد }
تفصیلات
iعربی زبان سے ماخوذ |اسم| ہے۔ اردو میں بطور |اسم| مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٨٤٩ء کو "مجموعۂ نظم بے نظیر" میں مستعمل ملتا ہے۔, iسنسکرت زبان سے ماخوذ |اسم| ہے۔ اردو میں اپنی اصلی حالت اور معنی میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٤٣٥ء کو"کدم راؤ پدم راؤ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["پانی جو درختوں سے ٹپکے","پانی جو مست ہاتھی کی کنپٹی سے ٹپکے","پانی جو مستی کی حالت میں پستانوں سے ٹپکے","جس میں تیل یا چربی کی بو ہو","عرض میں وہ خط جسے کھینچ کر نیچے حساب لکھنا شروع کرتے ہیں","مد ہوشی","وہ لمبا خط جسے کھینچ کر نیچے حساب لکھنا شروع کرتے ہیں","کوئی خوبصورت چیز","کوئی منشی چیز","کیف سرشاری"]
مدّ مَدّ
اسم
اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد ), اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
مد کے معنی
"کیا اسے معلوم نہیں کہ مد کا وقت قریب ہے اور ساحل پر قیام خطرناک ہو گیا ہے۔" (١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، ١٨٥)
پھر کھینچ کے مد عرضی کا آقا کو یہ لکھا اے شمع حرم دُرّ نجف قبلۂ بطحا (١٨٧٥ء، دبیر، دفتر ماتم، ١٥٦:٦)
قلی یا نفر ہو تو کچھ کام آئے مگر ان کو کس مد میں کوئی کھپائے (١٨٧٩ء، مسدس حالی، ٧٦)
"شادی اور محبت زندگی کی دو الگ الگ مدیں ہیں۔" (١٩٤٧ء، قصہ کہانیاں، ٣٧)
"یہ رقم مختلف ٹیکسوں کی مد میں حاصل کی گئی تھی۔" (١٩٩٩ء، جنگ، کراچی، یکم مارچ، ١)
"مد کے معنی کھینچنے اور دراز کرنے کے ہیں۔" (١٩٧٢ء، معارف القرآن، ٧٥٣:٨)
"مد لگانے سے الف کی آواز دوگنی ہو جاتی ہے۔" (١٩٩٤ء، نگار، کراچی، اگست، ١٧)
"مد کے لغوی معنی درازگی کے ہیں۔" (١٩٦٧ء، علم التجوید، ٤٢)
"اس پورے شعر سے انہیں اس قدر علم ہوا کہ شراب کو ہندی زبان میں "مد" کہتے ہیں۔" (١٩٢٦ء، مقالات محمود شیرانی، ١٢٩:٨)
کہیں ستار کہیں ڈھولکی بجائے ہیں غرور غفلت و خوبی کے مد میں ہیں سرشار (١٧٨٢ء، ماتم (دو نایاب بیاضیں)، ٢٥)
"ہاتھی جب مست ہوتا ہے تو اس کے دماغ سے ایک قسم کی رطوبت خارج ہوتی ہے جس کو مد کہتے ہیں۔" (١٩٧٥ء، پدماوت ایک تفصیلی جائزہ (اردو جنوری تا مارچ)، ١٥٣)
"اس کے لیے، اس کی چھال، اس کا پھل، اس کا پھول، اس کا مد، بیسوں بیماریوں کی دوا ہے۔" (١٨٦٩ء، اردو کی پہلی کتاب، آزاد، ٥٤:٢)
"اپنے من میں دیکھو کپٹ اور چھل کیسا ناچ رہا ہے، مد اور موہ کیسا تھرک رہا ہے۔" (١٩١٦ء، بازار حسن، ١٨٩)
چھپی چوری کدہیں مد میں پکٹ پاتی جو ہوں کیں تج تو دیکھ تج مست ہو جیوں مہراپس میں اب ٹھمکتی ہوں (١٦١١ء، قلی قطب شاہ ک، ١٨٢:٢)
مد کے مترادف
شعبہ, طغیانی, کشش, عنوان
بدبودار, جذبہ, جنون, جوش, خمار, خواہش, خوشی, دارو, دیوانگی, سودا, شراب, شوق, شہوت, عشق, فرحت, مستی, مشک, مے, نشہ, ولولہ
مد کے جملے اور مرکبات
مد مقابل, مد و جزر, مد نگاہ, مدپتی, مدمستی
مد english meaning
((Plural) مدات maddat|)entryextensionheadhead of accounthead of expenditurehoneyitemlengtheninglustprolongation mark over long vowelstretchtide
شاعری
- رونے میں تھے جو مد نظر آتشیں عذار
آب سرشک دیدہ تر جوش ہوگیا - روز یاں کا عید آیا ہے بہو چاؤ ہور بہو مان سوں
ساقی پلا مد عیش کا آپ حسن کے پرمان سوں - مد زائد ہے اگر کام نہیں آتا ہے
بھینک دیتے ہیں وہ ناخن جو ترش جاتا ہے - ہم بھوگ ہور ہم بھاگ سوں نس دن یو حظ کرتا اچھو
جو لگ ہے رچ فرقان میں مد جزم ہور تشدید کا - پانی کہ خضر حیات پایا
مد گھر تھے تنک سو جام پی یئے - بدخشی لعل خوض خانے میں بھر مد
اجت جوت جوں جام و شیشے بھی رخشاں - خلش تھی مد نظر ہم سے صرف گیروں کو
سو ہم نے ہاتھ ہی لکھنے سے یک قلم کھینچا - بغیر دیکھے تجے لاتی ہوں باری
لگی تجھ عشق کی مد کی خماری - جکوئی تج عشق کا مد پی متے ہو جھلنے ہارے ہیں
ہمیں عاشق انوں کے ہور انوں عاشق ہمارے ہیں - جھاڑاں چمن کے آج مست جھولیاں سوں جھلتے ہور مست
لالے کے پیالے بھر مگر مد باو پیلایا انند
محاورات
- دمش برداشتم مادہ برآمد
- آب آمد تیمم برخاست
- آب رفتہ بجوے باز آمد
- آپ کا کوئی مد مقابل یا میداں نہیں
- آپ کے دشمن یا مدعی
- آدھے میاں محمدی‘ آدھے میں سارا گاؤں۔ آدھے میاں موج‘ آدھے میں ساری فوج
- آرے سر پر چل گئے تو بھی مدار ہی مدار
- آفتاب آمد دلیل آفتاب
- آفتاب برآمد ہونا
- آمد (و) رفت بند ہونا