مد
{ مَد }
تفصیلات
iعربی زبان سے ماخوذ |اسم| ہے۔ اردو میں بطور |اسم| مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٨٤٩ء کو "مجموعۂ نظم بے نظیر" میں مستعمل ملتا ہے۔
["مدّ "," مَدّ"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
مد کے معنی
"کیا اسے معلوم نہیں کہ مد کا وقت قریب ہے اور ساحل پر قیام خطرناک ہو گیا ہے۔" (١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، ١٨٥)
پھر کھینچ کے مد عرضی کا آقا کو یہ لکھا اے شمع حرم دُرّ نجف قبلۂ بطحا (١٨٧٥ء، دبیر، دفتر ماتم، ١٥٦:٦)
قلی یا نفر ہو تو کچھ کام آئے مگر ان کو کس مد میں کوئی کھپائے (١٨٧٩ء، مسدس حالی، ٧٦)
"شادی اور محبت زندگی کی دو الگ الگ مدیں ہیں۔" (١٩٤٧ء، قصہ کہانیاں، ٣٧)
"یہ رقم مختلف ٹیکسوں کی مد میں حاصل کی گئی تھی۔" (١٩٩٩ء، جنگ، کراچی، یکم مارچ، ١)
"مد کے معنی کھینچنے اور دراز کرنے کے ہیں۔" (١٩٧٢ء، معارف القرآن، ٧٥٣:٨)
"مد لگانے سے الف کی آواز دوگنی ہو جاتی ہے۔" (١٩٩٤ء، نگار، کراچی، اگست، ١٧)
"مد کے لغوی معنی درازگی کے ہیں۔" (١٩٦٧ء، علم التجوید، ٤٢)
مترادف
شعبہ, طغیانی, کشش, عنوان
مرکبات
مد مقابل, مد و جزر, مد نگاہ