مدار کے معنی
مدار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ مَدار }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(س ۔ مندار)","آک کا درخت","بد معاش","پھرنے کا مقام","جس پر کوئی چیز ٹھیری ہو","جمادی الاول کا مہینہ","چاند یا سیاروں کے گردش کرنے کی جگہ","دغا باز","دورہ حلقہ","گردش کی جگہ"]
دور مَدار
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : مَدارات[مَدا + رات]
- جمع غیر ندائی : مَداروں[مَدا + روں (و مجہول)]
مدار کے معنی
"زمین سورج کے گرد دائرے کی صورت میں مدار پر گھومتی ہے" (١٩٩٤ء، قومی زبان، کراچی، مئی، ٢٧۔)
"تلفظ کی وسعت کا مدار بیشتر حروفِ مفرد کی تعداد پر رہتا ہے" (١٩٩٥ء، نگار، کراچی، اگست، ٢٣۔)
"اس کے برعکس ابن بطوطہ کی سیاحت کا مدار بہت وسیع تھا" (١٩٨٧ء، اردو ادب میں سفرنامہ، ٨٩۔)
"کیوں کہ عقل ہی پر وجوب او رنظام صحیح کا مدار ہے" (١٩٨٢ء، جرم و سزا کا اسلامی فلسفہ۔ ٦٥۔)
"زندگی اپنے مدار سے اکھڑی اکھڑی تھی" (١٩٤٩ء، ضمیر حاضر، ضمیر غائب، ١٦٤۔)
مدار کے مترادف
محور, مرکز
انحصار, چول, حلقہ, دائرہ, دور, دھری, دُھری, سور, سکون, قرار, قطب, قُطب, قیام, محور, مرکز, ٹھیراؤ, کیلی, ہاتھی
مدار english meaning
place of turning or returning; axis; pivot; centre; a place within which anything revolvesan orbit; a circumferencea centrea circumferencea seatan orbitaxisbasisceladinedependencegroundmilk-weedorbitperson in charge (of)person in charge (of). [A~ادارہ]swallow-wort
شاعری
- شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی - ہم ایک دُوجے سے ملتے تو کس طرح ملتے!
زمیں پہ آگ تھی تارے لہُو میں لتھڑے تھے
ہَوا کے ہاتھ میں خنجر تھا اور پُھولوں کی
پھٹی پھٹی ہُوئی آنکھوں میں ایک دہشت تھی
ارادے ٹوٹتے جاتے تھے اور اُمیدیں
حصارِ دشت میں ‘ بکھری تھیں اِس طرح‘ جیسے
نشان‘ بھٹکے ہُوئے قافلوں کے رہ جائیں
ہمارے پاس سے لمحے گَزرتے جاتے تھے
کبھی یقین کی صورت ‘ کبھی گُماں کی طرح
اُبھرتا‘ ڈوبتا جاتا تھا وسوسوں میں دِل
ہوائے تند میں کشتی کے بادباں کی طرح
عجیب خوف کا منظر ہمارے دھیان میں تھا
سروں پہ دُھوپ تھی اور مہر سائبان میں تھا
چراغ بُجھتے تھے لیکن دُھواں نہ دیتے تھے
نہیں تھی رات مگر رَت جگا مکان میں تھا!
حروف بھیگے ہُوئے کاغذوں پہ پھیلے تھے
تھا اپنا ذکر‘ مگر اجنبی زبان میں تھا
نظر پہ دُھند کا پہرا تھا اور آئینہ
کسی کے عکسِ فسوں ساز کے گُمان میں تھا
ہم ایک راہ پہ چلتے تو کس طرح چلتے!
تری زمیں کسی اور ہی مدار میں تھی
مِرا ستارا کسی اور آسمان میں تھا
ہم ایک دُوجے سے ملتے تو کس طرح ملتے!
سَمے کا تیز سمندر جو درمیان میں تھا - تو جو بھی ہونا ہے امجد یہیں پہ ہونا ہے
زمیں مدار سے باہر تو جا نہیں سکتی! - نکل ہی جائے گی اک دن مدار سے یہ زمیں
اگر چہ پہرے پہ بیٹھے ہیں آسماں کیا کیا - وفا دشمن نہ ہو اے آشنارو
وفا پر ہے مدار آشنائی - تم ہو ہمارے مرکز اقبال کے مدار
کہتے ہیں آصف اپنے مدار المہام سے - نے کیا دل کو‘ ہنستے ہنستے صنم
کر کے دار و مدار اور اخلاص - صحبت اغیار و یار دیکھیئے کب تک رہے
مجھ سے یہ دار و مدار دیکھنے کب تک رہی - یہاں سبھوں نے بھلائی ہے دل سے موت اور گور
یہاں نہیں ہے مدفرا بغیر دار و مدار - گر ہے ترا قضا و قدر پر مدار تو
تکیہ نکو کر اس فلک بے مدار پر
محاورات
- آرے سر پر چل گئے تو بھی مدار ہی مدار
- ایسے ایسے مداری ہم نے بہت چنگے کئے ہیں
- ایسے مداری ہم نے بہت چنگے کیے ہیں
- اینٹ کی پانت دم مدار
- باپ مداری پوت بھنڈاری
- بادوستاں تلطف بادشمناں مدارا
- بھرتے کو بھریں شاہ مدار
- تھوڑی آس مدار کی بہت آس گلگلوں کی
- جب کمر میں زور ہوتا ہے تب مدار صاحب بھی بیٹا دیتے ہیں
- دارومدار منظور ہونا