منتر
{ مَن + ترَ }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٣٧٠ء، کو اردو کی ابتدائی نشوونما" کے حوالے سے شیخ شرف الدین یحیٰ منیری کے ہاں مستعمل ملتاہے۔
[""]
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : مَنْتَروں[مَن + تَروں (واؤ مجہول)]
منتر کے معنی
"اس کے منتر نے آج کچھ اثر نہ کیا" (١٩٨٧ء، آخری آدمی، ١٠٠)
"ایک مہنت دھرم مورت بن کر جا بیٹھے اور خوب زور و شور سے اشلوک پڑھنے اور منتر جپنے شروع کر دیئے"۔ (١٨٨٠ء، آب حیات، ٢٩٢)
"میں تو ان تمام سلسلوں کا ایک ہی سررشتہ جانتا ہوں کہ مشرق کو ان منتروں کے ذریعہ سے خفتہ تر کرنا"۔ (١٩٦٠ء، برید فرنگ، ١٢٢)
"ان کے بارے میں خیال ہے کہ جنتر(تعویذ) تھے، جن پر منتر(روحانی کے تاثیر کے الفاظ) لکھے گئے تھے"۔ (١٩٨٩ء، تاریخ پاکستان(قدیم دور) ٢٩٢)
"غیر مسلم حضرات خصوصاً مشنری، مسلمان عورتوں کو بہکانے میں اکثر کثرت سے کام لیتے ہیں . اس لیے معمولی مسلمان عورتوں میں یہ منتر کامیاب ہو جاتا ہے"۔ (١٩٢٩ء، آمنہ کا لال، ١١١)
"پر ہی بات بھگوان نے اسی ادھیا کے پچسیویں منتر میں کہی ہے"۔ (١٩٢٨ء، بھگوت گیتا(اردو)، ١٨٨)
مترادف
حمد, دعا, لٹکا
مرکبات
منتر جنتر, منتر درشٹا, منتر دھاری, منتر راج, منتر سدھ, منتر کاری, منتر گپت