نرخ کے معنی
نرخ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ نِرْخ }
تفصیلات
iفارسی سے اصل صورت اور مفہوم کے ساتھ اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیاتِ قلی قطب شاہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["اناج وغیرہ کا بھاؤ"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : نِرْخوں[نِر + خوں (و مجہول)]
نرخ کے معنی
"کسی کسی پیشے میں ہمارے معاوضوں کا اوسط نرخ ابھی تک کم ہے۔" (٢٠٠١ء، آئش لینڈ، ٩٦)
"گوشت کا سرکاری نرخ چوبیس روپے مقرر ہے۔" (١٩٨٩ء، گزارا نہیں ہوتا، ١٤٣)
نرخ کے مترادف
بہا, شرح, ریٹ, بھاو, مول
بھاؤ, بہا, ثمن, در, شرح, قیمت, مول
نرخ کے جملے اور مرکبات
نرخ بندی, نرخ داروغہ, نرخ نامہ
نرخ english meaning
Tariffassizeprice (of provisionsas fixed by the magistrates or the police)market-ratecurrent pricepricerate
شاعری
- چلے ہم نقد عصیں لے کے آمرزش کے سودے کو
کہ نرخ اس جنس کا کچھ بھی نہیں رکھا گراں تونے - لکھا نہ ایک بھی پرزا ہمیں کبھو کیوں یار
بکے ہے شہر میں شاید نہ نرخ جاں کاغذ - قیمت لعل لب سے دلبر توڑ
دانت دکھلا کے نرخ گوہر توڑ - گر کسی نرخ پہ ٹھہرے تری جنس حسنات
تو فرشتوں کو یہ لالچ ہو کریں بیع سلم - جانوں کا ابھی نرخ نہ زنہار کھلا تھا
سربک رہے تھے موت کا بازار کھلا تھا - تج شکر ایسے بول تھے نرخ شکر سب کم ہوا
شہر بدخشاں میں نواروں لعل ادھر کے دان کوں - کوئی نرخ اٹھائے متاع سخن کے
میں دل بیچتا ہوں زباں بیچتا ہوں - تیری چشم شوخ نے ایسا گرایا آنکھ سے
کوڑیوں سے نرخ ارزاں ہوگیا بادام کا - یہ منفعت کا زمانہ ہے نرخ بالا رکھ
انا کے کوچہ و بازار میں خسارا نہیں - جس وقت سوں تجھ قد کے تئیں لائے ہیں شاکر فکر کے
اس وقت سوں عالم منیں نرخ سخن بالا ہوا
محاورات
- نرخ متاعے کہ فراواں بود
- نرخ تیز ہونا