نسبت کے معنی
نسبت کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ نِس + بَت }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے من و عن اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم نیز متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["بلحاظ تفضیل بعض کے لئے جیسے اس کی نسبت یہ اچھا ہے","بنظر (نَسَبَ۔ آباؤ اجداد کا نام بتانا)","پیغامِ رشتہ","پیغام شادی","پیغام نکاح","حسب نسب","مقابلہ میں","نکاح کا پیغام","کسی چیز کی طرف منسوب ہونا"]
سنب نِسْبَت
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : نِسْبَتیں[نِس + بَتیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : نِسْبَتوں[نِس + بَتوں (و مجہول)]
نسبت کے معنی
نسبت بہت گناہوں کی میری طرف ہوئی ناکردہ جرم میں تو گناہ گار ہو گیا (١٨١٠ء، میر، کلیات، ٨٤٨)
بے خواب شبیں، زرد رُتیں، وحشت دنیا ہم نے انہیں دیکھا تیری نسبت سے زیادہ (١٩٩٨ء، افکار (اصغر عباس)، کراچی، اگست، ٣٧۔)
"دیکھا جائے تو بدیع میں مبالغے کو حقیقت سے وہی نسبت ہے جو بیان میں حقیقت کو مجاز سے ہے" (١٩٩٣ء، ساختیات، بس ساختیات اور مشرقی شعریات، ٤٣٧۔)
"اگلے ہفتے میں شادی ہو گی، یہ نسبت اتنی پوشیدہ رکھی گئی کہ ٹھاکر شیر سنگھ کو اس وقت خبر ہوئی کہ جب شادی ہونے میں ایک دن باقی تھا" (١٩٨٩ء، برصغیر میں اسلامی کلچر، ٢٤٤۔)
"بعض نساب نسبت کے وقت اوپر کے صرف نامور اور مشہور آباؤ و اجداد کا ذکر کر دیتے تھے" (١٩٨٦ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٣:١٩۔)
"نسبت ایک لگاؤ اور تعلق کا نام ہے جو دونوں طرف سے ہوتا ہے بندہ کو خدا سے اور خدا کو بندہ سے" (١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ١١١١)
"چونکہ ناطق اعداد کے ذریعے سے یہ نسبت پوری پوری ظاہر نہیں ہوتی" (١٩٤١ء، تنقید عقل محض، ٥١٠۔)
"شعری ارتقا کی سب سے زیادہ تحریک قرآن مجید کی کتاب سے ہوئی پھر مسلمانوں نے اسے ایک اعلٰی فن لطیف اور عملی طور پر ایک ریاضیاتی سائنس کی سطح پر جا پہنچایا جس کے ہر حرف کے ل یے مقدار اور نسبت کے پیمانے مقرر ہوئے" (١٩٩٠ء، اردو نامہ، لاہور، مارچ، ١٤۔)
"ان میں سے ایک مسئلہ جس کے متعلق بہت کچھ قیاس آرائیاں ہو چکی ہیں دماغ کے وزن اور ذہنی صلاحیت کے درمیان نسبت کا سوال ہے" (١٩٦٩ء، نفسیات کی بنیادیں (ترجمہ)، ٤٠۔)
"لیکن ان ہر دو مذکورہ گیسوں کو ایک خاص نسبت سے یکجا کر دیا جائے تو یہ اپنی انفرادیت کھو بیٹھتی ہیں اور پانی وجود میں آ جاتا ہے" (١٩٩٣ء، صحیفہ، لاہور، جنوری، مارچ، ٢٥۔)
"دائرہ صغیر اور دائرہ کبیر کے قوسوں میں نسبت معلوم ہو سکتی ہے" (١٩٤٩ء، علم الافلاک، ٦٩۔)
"اور یہ سب مختلف زمانوں کی تصانیف ہیں لیکن پڑھاتے وقت بچوں کو ان کی نسبت کچھ نہیں بتایا جا سکتا" (١٩٩٤ء، نگار، کراچی، مارچ، ١١٠)
"فاسق کا یہ بیان بہرحال یقین کی نسبت شک کے قریب تر ہے" (١٩٨٠ء، اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، ٥٣:١،١٤۔)
نسبت کے مترادف
بابت, پیام, علاقہ, لگاؤ, انتساب, ناتا
بابت, تعلق, حوالہ, خطبہ, خُطوبہ, سگائی, علاقہ, لگاؤ, مشابہت, مطابقت, مناسبت, مُناسبت, منگنی, نسب, نظیر, واسطہ, کُڑمائی
نسبت کے جملے اور مرکبات
نسبت اضافی, نسبت باطنی, نسبت بندگی, نسبت تام, نسبت تداخل, نسبت تکریمی, نسبت تماثل, نسبت جذبی, نسبت خویشی, نسبت روحانی, نسبت سے, نسبت شاگردی, نسبت عشقی, نسبت کر, نسبت نزومی, نسبت مبادلہ, نسبت مستقیم, نسبت مشترک, نسبت معکوس, نسبت معنوی, نسبت ممتنع, نسبت ناتا, نسبت نامہ, نسبت نما, نسبت ہندسی
نسبت english meaning
referring (to); deriving (from); respectregard (to); attribute; relationconnexion; affinity; analogy; comparison; alliance; eternal; a relationor connexion; a conundrumcomparisonratioson
شاعری
- ہے میری تیری نسبت روح اور جسد کی سی
کب آپ سے میں تجھ کو اے جان جدا جانا - پاسباں سے تیرے کیا دُور جو ہو ساز رقیب
ہے نہ اک طرح کی نسبت سگ و دربان کے بیچ - تجھ سے یوسف کو کیونکہ نسبت دیں
تب شنیدہ ہو دیدہ کے مانند - رحمت غضب میں نسبت برق و سحاب ہے
جس کو شعور ہو تو گنہگار کیوں نہ ہو - گوواں نہیں پرواں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبہ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دُور کی - لفظ و معنی میں جو نسبت ہے تن و روح کی ہے
ورنہ معنی ہیں کہاں اور کہاں ہیں الفاظ - نسبت کا یہ صدقہ ہے کہ کرتے ہیں خدائی
وہ بت جو نکالے گئے اللہ کے گھر سے - نسبت مری جبیں کو انہیں پتھروں سے ہے
مشکل نہ تھا کہ آئینہ خانے تراش لوں - نہ گھر سے اِن کو ہے نسبت نہ کوئی نام سے کام
دلوں میں بستے‘ نظر میں مقام کرتے ہیں - (دلدار بھٹی کے لیے ایک نظم)
کِس کا ہمدرد نہ تھا‘ دوست نہ تھا‘ یار نہ تھا
وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا
قہقہے بانٹتا پھرتا تھا گلی کوچوں میں
اپنی باتوں سے سبھی درد بُھلا دیتا تھا
اُس کی جیبوں میں بھرے رہتے تھے سکّے‘ غم کے
پھر بھی ہر بزم کو گُلزار بنا دیتا تھا
ہر دُکھی دل کی تڑپ
اُس کی آنکھوں کی لہو رنگ فضا میں گُھل کر
اُس کی راتوں میں سُلگ اُٹھتی تھی
میری اور اُس کی رفاقت کا سفر
ایسے گُزرا ہے کہ اب سوچتا ہوں
یہ جو پچیس برس
آرزو رنگ ستاروں کی طرح لگتے تھے
کیسے آنکھوں میں اُتر آئے ہیں آنسو بن کر!
اُس کو روکے گی کسی قبر کی مٹی کیسے!
وہ تو منظر میں بکھر جاتا تھا خُوشبو بن کر!
اُس کا سینہ تھا مگر پیار کا دریا کوئی
ہر دکھی روح کو سیراب کیے جاتا تھا
نام کا اپنے بھرم اُس نے کچھ ایسے رکھا
دلِ احباب کو مہتاب کیے جاتا تھا
کوئی پھل دار شجر ہو سرِ راہے‘ جیسے
کسی بدلے‘ کسی نسبت کا طلبگار نہ تھا
اپنی نیکی کی مسّرت تھی‘ اثاثہ اُس کا
اُس کو کچھ اہلِ تجارت سے سروکار نہ تھا
کس کا ہمدرد نہ تھا‘ دوست نہ تھا‘ یار نہ تھا
وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا
محاورات
- آندھی اور چراغ میں کیا نسبت
- آندھی اور چراغ کو کیا نسبت
- چہ نسبت خاک را با عالم پاک
- چہ نسبت خاک رابا عالم پاک
- ذرا را باخور شید چہ نسبت