نمبر کے معنی
نمبر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ نَم + بَر }
تفصیلات
١ - نشان، لمبر، ہندسہ، عدد، تعداد، گنتی۔, m["(مذاقاً) جماع","وہ عدد جس پر داؤ لگایا جائے","وہ عدد جو امتحان کے سوالوں کے لئے مقرر کیا جاتا ہے","وہ عدد جو سٹے باز لاٹری والے ہر شامل ہونیوالے کو دیتے ہیں"]
اسم
اسم عدد
نمبر کے معنی
١ - نشان، لمبر، ہندسہ، عدد، تعداد، گنتی۔
نمبر کے جملے اور مرکبات
نمبر اندازی, نمبر ایک, نمبر پلیٹ, نمبردار, نمبرداری, نمبر دوکا, نمبر سے, نمبر شمار, نمبر شماری, نمبر ون, نمبر کارڈ, نمبر مقدمہ, نمبر نالش
شاعری
- اب جو دیکھیں تو بہت صاف نظر آتے ہیں
سارے منظر بھی‘ پس منظر بھی
لیکن اِس دیر خیالی کا صلہ کیا ہوگا؟
یہ تو سب بعد کی باتیں ہیں مِری جان‘ انہیں
دیکھتے‘ سوچتے رہنے سے بھلا کیا ہوگا؟
وہ جو ہونا تھا ہُوا … ہو بھی چُکا
وقت کی لوح پہ لِکھّی ہُوئی تحریر کے حرف
خطِ تنسیخ سے واقف ہی نہیں
بخت‘ مکتب کے رجسٹر کی طرح ہوتا ہے
اپنے نمبر پہ جو ’’لبیک‘‘ نہیں کہہ پاتے
اُن کا کھ عذر نہیں… کوئی بھی فریاد نہیں
یہ وہ طائر ہیں جنہیں اپنی نوا یاد نہیں - فرق
کہا اُس نے دیکھو‘
’’اگر یہ محبت ہے‘ جس کے دو شالے
میں لپٹے ہوئے ہم کئی منزلوں سے گزر آئے ہیں!
دھنک موسموں کے حوالے ہمارے بدن پہ لکھے ہیں!
کئی ذائقے ہیں‘
جو ہونٹوں سے چل کر لہُو کی روانی میں گُھل مِل گئے ہیں!
تو پھر اُس تعلق کو کیا نام دیں گے؟
جو جسموں کی تیز اور اندھی صدا پر رگوں میں مچلتا ہے
پَوروں میں جلتا ہے
اور ایک آتش فشاں کی طرح
اپنی حِدّت میں سب کچھ بہاتا ہُوا… سنسناتا ہُوا
راستوں میں فقط کُچھ نشاں چھوڑ جاتا ہے
(جن کو کوئی یاد رکھتا نہیں)
تو کیا یہ سبھی کچھ‘
اُنہی چند آتش مزاج اور بے نام لمحوں کا اک کھیل ہے؟
جو اَزل سے مری اور تری خواہشوں کا
انوکھا سا بندھن ہے… ایک ایسا بندھن
کہ جس میں نہ رسّی نہ زنجیر کوئی‘
مگر اِک گِرہ ہے‘
فقط اِک گِرہ ہے کہ لگتی ہے اور پھر
گِرہ در گِرہ یہ لہو کے خَلیّوں کو یُوں باندھتی ہے
کہ اَرض و سَما میں کشش کے تعلق کے جتنے مظاہر
نہاں اور عیاں ہیں‘
غلاموں کی صورت قطاروں میں آتے ہیں
نظریں جُھکائے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں
اور اپنے رستوں پہ جاتے نہیں
بات کرتے نہیں‘
سر اُٹھاتے نہیں…‘‘
کہا میں نے‘ جاناں!
’’یہ سب کُچھ بجا ہے
ہمارے تعلق کے ہر راستے میں
بدن سنگِ منزل کی صورت کھڑا ہے!
ہوس اور محبت کا لہجہ ہے یکساں
کہ دونوں طرف سے بدن بولتا ہے!
بظاہر زمان و مکاں کے سفر میں
بدن ابتدا ہے‘ بدن انتہا ہے
مگر اس کے ہوتے… سبھی کُچھ کے ہوتے
کہیں بیچ میں وہ جو اِک فاصلہ ہے!
وہ کیا ہے!
مری جان‘ دیکھو
یہ موہوم سا فاصلہ ہی حقیقت میں
ساری کہانی کا اصلی سِرا ہے
(بدن تو فقط لوح کا حاشیہ ہے)
بدن کی حقیقت‘ محبت کے قصے کا صرف ایک حصہ ہے
اور اُس سے آگے
محبت میں جو کچھ ہے اُس کو سمجھنا
بدن کے تصّور سے ہی ماورا ہے
یہ اِک کیفیت ہے
جسے نام دینا تو ممکن نہیں ہے‘ سمجھنے کی خاطر بس اتنا سمجھ لو
زمیں زادگاں کے مقدر کا جب فیصلہ ہوگیا تھا
تو اپنے تحفظ‘ تشخص کی خاطر
ہر اک ذات کو ایک تالہ ملا تھا
وہ مخصوص تالہ‘ جو اک خاص نمبر پہ کُھلتا ہے لیکن
کسی اور نمبر سے ملتا نہیں
تجھے اور مجھے بھی یہ تالے ملے تھے
مگر فرق اتنا ہے دونوں کے کُھلنے کے نمبر وہی ہیں
اور ان نمبروں پہ ہمارے سوا
تیسرا کوئی بھی قفل کُھلتا نہیں
تری اور مری بات کے درمیاں
بس یہی فرق ہے!
ہوس اور محبت میں اے جانِ جاں
بس یہی فرق ہے!! - اک اک گھر کا نام اور نمبر پوچھ کے دن بھی ڈوب چلا
بیلوں کے سائے کے پیچے شام کھری تھی کھڑکی میں
محاورات
- نمبر بڑھ جانا