ٹکٹ کے معنی
ٹکٹ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ ٹِکَٹ }
تفصیلات
iاصلاً انگریزی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں انگریزی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی اردو رسم الخط میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٥٩ء میں "خطوط غالب" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اجازت نامہ جو فاحشہ عورتیں انگریزی چھاؤنیوں میں پیشہ کرنے کے لئے لیتی ہیں","پروانہ راہداری","تاگوں کا پتّہ","سوداگری کے مال کا پرچہ جس پر کارخانے کا نام لکھا ہوتا ہے","لگان (یہ ٹیکس کا بگڑا ہوا ہے)","لوہے کی چھوٹی تختی جس پر نمبر یا نام لکھ کر لگواتے ہیں","موٹے کاغذ کا مستطیل ٹکڑا","وہ ٹکڑا جس پر نام اور پتہ لکھا ہو","وہ ٹکڑا جس کو دکھا کر کہیں جائیں یا گاڑی پر سوار ہوں","ڈاک خانے کے محصول کا اسٹامپ"]
Ticket ٹِکَٹ
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع استثنائی : ٹِکَٹْس[ٹِکَٹْس]
- جمع غیر ندائی : ٹِکْٹوں[ٹِک + ٹوں (واؤ مجہول)]
ٹکٹ کے معنی
"اگر آپ کل شام یا ٢٠ کی صبح لاہور پہنچ سکیں تو ٹکٹ صرف لاہور ہی تک کا خرید کریں۔" (١٩٣٣ء، اقبال نامہ، ١٧٧:١)
"بھائی مسودہ روانہ کرنے کے لیے ٹکٹ چاہئیں۔" (١٩٤٥ء، تلخ شیریں اور شیریں، ١٣٣)
"ہر شخص کے ہتھیار ایک خاص مقام پر حکم سرکار سے چھین کر جمع کرتے ہیں اور اس کو ایک ٹکٹ ملتا ہے۔" (١٨٨٠ء، ماسٹر رام چندر، ١٩٦)
"ایک عجائب خانہ یہاں قائم کر دیا جائے - اس کے داخلہ کے لیے ایک ٹکٹ مقرر کرایا جا سکتا ہے۔" (١٩٢٦ء، شرر، مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، ٥٢٢)
"صاحب موصوف نے اپنا ٹکٹ اوپر بھیجا میں ان کے استقبال اور بغل گیری کے واسطے نیچے اتر آیا۔" (١٨٩٢ء، اصول سراغ رسانی، ١٧١)
"سب تھانوں پر حکم ہے کہ دریافت کرو، کون بے ٹکٹ مقیم ہے اور کون ٹکٹ رکھتا ہے۔" (١٨٥٩ء، خطوط غالب، ٢٧٣)
"لیکن اس کے ٹکٹ پر جو لوگ کامیاب ہوئے وہ سیلاب کی سطح پر تنکوں کی طرح بھی تھے۔" (١٩٧٦ء، |نوائے وقت| لاہور، ٢٠ اگست)
"فی سال ایک ماہ کے حساب سے رہائی کل قیدیوں کے ٹکٹوں پر چڑھا دی گئی۔" (١٩٠٥ء، قیدفرنگ، ٧٢)
"سینکڑوں دکانوں میں قفل پڑے سرکاری ٹکٹ لگے۔" (١٩١٣ء، چھلاوہ، ٢)
ٹکٹ کے جملے اور مرکبات
ٹکٹ بابو, ٹکٹ چیکر, ٹکٹ زدہ, ٹکٹ کلکٹر, ٹکٹ گھر, ٹکٹ منشی
ٹکٹ english meaning
ticketa court-fee stampa labela passa postage stampa ticketunpalatable truth
شاعری
- ایک حالتِ ناطاقتی میں
جرمن شاعر گنٹر گراس کی نظم IN OHNMACHT CEFALLEN کا آزاد ترجمہ
جب بھی ہم ناپام کے بارے میں کچھ خبریں پڑھتے ہیں تو سوچتے ہیں
وہ کیسا ہوگا!
ہم کو اس کی بابت کچھ معلوم نہیں
ہم سوچتے ہیں اور پڑھتے ہیں
ہم پڑھتے ہیں اور سوچتے ہیں
ناپام کی صورت کیسی ہوگی!
پھر ہم ان مکروہ بموں کی باتوں میں بھرپور مذمّت کرتے ہیں
صبح سَمے جب ناشتہ میزوں پر لگتا ہے‘
ُگُم سُم بیٹھے تازہ اخباروں میں ہم سب وہ تصویریں دیکھتے ہیں
جن میں اس ناپام کی لائی ہُوئی بربادی اپنی عکس نمائی کرتی ہے
اور اِک دُوجے کو دِکھا دِکھا کے کہتے ہیں
’’دیکھو یہ ناپام ہے… دیکھو ظالم اس سے
کیسی کیسی غضب قیامت ڈھاتے ہیں!‘‘
کچھ ہی دنوں میں متحرک اور مہنگی فلمیں سکرینوں پر آجاتی ہیں
جن سے اُس بیداد کا منظرص کالا اور بھیانک منظر
اور بھی روشن ہوجاتا ہے
ہم گہرے افسوس میں اپنے دانتوں سے ناخن کاٹتے ہیں
اور ناپام کی لائی ہوئی آفت کے ردّ میں لفظوں کے تلوے چاٹتے ہیں
لیکن دُنیا ‘ بربادی کے ہتھکنڈوں سے بھری پڑی ہے
ایک بُرائی کے ردّ میں آواز اُٹھائیں
اُس سے بڑی اِک دوسری پیدا ہوجاتی ہے
وہ سارے الفاظ جنہیں ہم
آدم کُش حربوں کے ردّ میں
مضمونوں کی شکل میں لکھ کر‘ ٹکٹ لگا کر‘ اخباروں کو بھیجتے ہیں
ظالم کی پُرزور مذمّت کرتے ہیں
بارش کے وہ کم طاقت اور بے قیمت سے قطرے ہیں
جو دریاؤں سے اُٹھتے ہیں اور اّٹھتے ہی گرجاتے ہیں
نامَردی کچھ یوں ہے جیسے کوئی ربڑ کی دیوارووں میں چھید بنائے
یہ موسیقی‘ نامردی کی یہ موسیقی‘ اتنی بے تاثیر ہے جیسے
گھسے پٹے اِک ساز پہ کوئی بے رنگی کے گیت سنائے
باہر دُنیا … سرکش اور مغرور یہ دُنیا
طاقت کے منہ زور نشے میں اپنے رُوپ دکھاتی جائے!! - ٹکٹ بانڈ اسٹامپ تاوان چندے
بناتے ہیں مل کر حجامت ہماری
محاورات
- تین تتالا چوتھے کا منہ کالا۔ تین ٹکٹ مہا بکٹ اور چار کا منہ کالا اور پانچ ہو تو بھالا
- ٹکٹکی باندھنا یا لگانا
- کواڑ کھٹکٹھانا