ٹھیکرا
{ ٹِھیک + را }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے، اصل معنی اور حالت میں عربی رسم الخط میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٩٠ء میں شاہ عبدالقادر کے "ترجمہ قرآن مجید" میں مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : ٹِھیکْرے[ٹِھیک + رے]
- جمع غیر ندائی : ٹِھیکْروں[ٹِھیک + روں (و مجہول)]
ٹھیکرا کے معنی
١ - مٹی کے برتن کا ٹوٹا ہوا ٹکڑا، نیز تحقیر کے طور پر بحرف مسی اور پرانے ظروف کو بھی کہتے ہیں، (مجازاً) ادنٰی شے۔
ساغر زریں ہو یا مٹی کا ہو اک ٹھیکرا تو نظر کر اس پہ کچھ اس کے اندر ہے بھرا (١٩١١ء، کلیات اسماعیل، ٣٤٨)
٢ - ٹوٹا پھوٹا برتن۔ (شبد ساگر)
"مکان تم ضرور خرید لو کم سے کم ایک رہنے کا ٹھیکرا تو ہو جائے۔" (١٩٤٠ء، ساغر محبت، ٤١)
٣ - شکستہ مال، زور (پلیٹس)
گدائی کا ملا تھا ٹھیکرا جو در سے ساقی کے اسی کو بزم جم میں ساغر گیتی نما پایا (١٩٣٣ء، صوت تغزل، ٢)
٤ - (انکساری یا تحقیر کے لیے) مکان، جائداد، ٹوٹا پھوٹا مکان، ٹھکانا۔
"اگر کبھی جھانسا دے کر بائی جی کو لے اڑا تو بڑا ہی گھاٹا رہے گا ہمارے مانگنے کھانے کا ٹھیکرا ہی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔" (١٩١١ء، پہلا پیار، ٣١)
٥ - فقیر کا بھیک مانگنے کا ظرف۔
"جس ٹھیکرے میں آنول ڈالتے ہیں اس میں پہلے پان چاندی رکھ دیتے ہیں۔" (١٩٠٥ء، رسوم دہلی، سید احمد، ١٠)
٦ - [ مجازا ] سہارا، آسرا، ذریعہ۔
٧ - زچگی خانہ کی آلاش ڈالنے کا مٹی کا ظرف۔
٨ - بھنگی کا گو اٹھانے کا لوہے وغیرہ کا پترا۔ (ا پ و)
٩ - گھڑے وغیرہ کا نچلا حصہ جس میں فقیر آگ جلاتے یا دباتے ہیں) ٹوٹے پھوٹے یا معمولی زیورات؛ بندوق کے گھوڑے کا اوپر کا حصہ؛ ناریل کے سخت پوست کا ٹکڑا۔ (نوراللغات)