پیام کے معنی
پیام کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ پَیام }
تفصیلات
iفارسی سے اردو میں اپنی اصل صورت و مفہوم کے ساتھ داخل ہوا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٦٦٥ء کو |علی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بھیجنا","پہنچانا","دینا","سنانا","زبانی خبر","زبانی درخواست","زبانی سوال","زبانی سوال کرنا","زبانی عرض","منہ زبانی کہلا بھیجنا"]
پیام پَیام
اسم
اسم مجرد ( مذکر - واحد )
پیام کے معنی
"آدمی نے جا کر پیام پہنچا دیا اور تھوڑی دیر بعد آ کر کہا چل تجھ کو حاضر ہونے کی اجازت مل گئی۔" (١٩٢٧ء، گل دستۂ عید، ٣٦)
کب پیامِ وصال آتا ہے خواب ہے جو خیال آتا ہے (١٨٣٨ء، ریاض البحر، ٢٢٦)
"ان دونوں کی گفتگو میری شادی کے متعلق ہو جاتی تھی، دونوں کو اس کا صدمہ تھا کہ پیام کہیں سے نہیں آتا۔" (١٩٣٦ء، گردابِ حیات، ٥٣)
"ملازمت کے بہت سے پیام آئے مگر قبول نہیں کی۔" (١٩٢٩ء، تذکرۂ کاملان رام پور، ٤٠١)
پیام کے مترادف
سندیسا, نسبت
آنا, پیغام, جانا, سگائی, سماچار, سندیسہ, سنیہا, عرض, منگنی, نسبت
پیام کے جملے اور مرکبات
پیام بر, پیام مرگ
پیام english meaning
messageerrandcommunicationa hamletA messagea villagenews
شاعری
- ہم تو اک حرف کے نہیں ممنون
کیسا خط و پیام ہوتا ہے - ملتے ہیں روز دستِ صبا سے پیام گل
زنداں میں بھی قریب ہیں اہلِ چمن سے ہم - پیام برکو کبھی اس نے مرجانہ کیا
کیوتران حرم مرگئے پر آنہ کیا - نہ ملیں گے ہم نہ ملیں گے ہم کبھی آبرو کو نہ دیں گے ہم
جو رقیب سے بھی پیام ہے تو یہیں سے ان کو سلام ہے - جنگ ، نے صبح کے تئیں ہے نہ شام
آشتی کے ہیں اب پیام وسلام - یہ دیا تھا پیام چلتے بار
کہ بنے وقت اور ملے جو وہ یار - برچھی لگی یہ نخل تمنا میں پھل آیا
خط بھی نہ بھرا تھا کہ پیام اجل آیا - رگ یاقوت کے قلم سوں لکھیں
خط پرستاں پیام تجھ لب کا - تلوار تھی کہ برطرفی کا پیام تھا
چہرے کٹے تھے جائزہ فوج شام تھا - سناتا ہے پیام وصل مجھ کو ہر سحر جھونٹا
نہیں کہتا ہے سچی ایک دن بھی نامہ بر جھونٹا
محاورات
- پیام اجل پہنچانا