چشمک کے معنی
چشمک کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ چَش + مَک }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ |چشم| کے ساتھ |ک| بطور لاحقۂ تصغیر و کیفیت لگانے سے اردو میں |چشمک| بنا اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٠٣ء کو "شرح تمہیدات ہمدانی (ق)" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["آنکھ مارنا","اشارہ چشم","چھوٹی آنکھ","شکر رنجی","طُرفتہ العین","مخالفت (ہونا کے ساتھ)","کن انکھی"]
چشم چَشْمَک
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : چَشْمَکیں[چَش + مَکیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : چَشْمَکوں[چَش + مَکوں (و مجہول)]
چشمک کے معنی
"اس باطن کے پانچ، سو ہیچ ظاہر کے پانچہ ہیں، جوں چشمک آنکھ کو لائیے تو پیلاڑ دیکھتی۔" (١٦٠٣ء، شرح تمہیدات ہمدانی، (قلمی نسخہ)، ٢١٠)
کبھی ہے چشمک گل میں پیام بیداری کبھی وداع شکیب و قرار کیا کہنا (١٩٤٢ء، عروس فطرت، ٣٧)
بجلیوں سے جہاں نہ ہو چشمک اس گلستان میں آشیاں نہ بنا (١٩٥٥ء، مجاز، آہنگ، ٦٣)
کیا ہو گئی خود بینی اب غیر سے چشمک ہے یا خوش نگہی وہ کچھ یا بد نظری اتنی (١٨٥١ء، مومن، کلیات، ١٤٤)
"پتے کی بات پر کسی کی چشمک کسی کے رخساروں پر جھیپنے سے خون کی جھلک۔" (١٩١٥ء، سجاد حسین، حاجی بغلول، ٦)
ہے آبلوں سے خار کو چشمک، تو ہو چلتے رہو جب تک ہے اثر دم میں دم (١٩٤٧ء، لالہ و گل، ٢١)
"عام طور پر ہر آنکھ تین چشمکوں پر مشتمل ہے . چشمکوں میں سے دو ظہری ہوتی ہیں اور اوپر کے جانب دیکھتی ہیں۔" (١٩٦٩ء، قشریہ، ٥٧)
چشمک کے مترادف
رکاوٹ, گوشہ
انقباض, ایما, جھانولی, جھپکی, چٍشمہ, دفش, رمز, رنجش, رُکاؤ, رکاوٹ, شکررنجی, عینک, غبخ, غنج, گوشہ
چشمک کے جملے اور مرکبات
چشمک بازی, چشمک زن, چشمک فگن
چشمک english meaning
be in straitened circumstancesfall on evil daysflashmisunderstandingmisunderstanding , bad blood (between)spectaclesWinkwink |~PREC|
شاعری
- یک نگہ ایک چشمک ایک سخن
اس میں بھی تم کو ہے تامل سا! - یک چشمک اس طرف بھی تو کافر کہ تو ہی ہے
دین نگاہ حسرت و ایمان آرزو! - دیکھ اس آتش کے پر کالے کی وہ چشمک زنی
مجھ کو بجل بھی نظر پڑتی ہے گھبرائی ہوئی - چشمک اس مہ کی سی دلکش دید میں آئی نہیں
گو ستارہ صبح کا بھی انکھ جھپکانے لگا - دل کو کھینچے ہے چشمک انجم
آنکھ ہم نے کہاں لڑائی ہے - خط کا آغاز ہے آنکھوں کی صفائی ہے وہی
روز چشمک ہے وہی روز لڑائی ہے وہی - ایک بھی چشمک نہ اوس مہ کی سی کی
آنکھیں تاروں نے بہت جھمکائیاں - شرر کی سی ہے چشمک فرصت عمر
جہاں دے ٹک دکھائی ہو چکی بس - اک چشمک پیالہ ہے ساقی بہار عمر
جھپکی لگی کہ دور یہ آخر ہی ہو چکا - چشمک جھلم کی ہے کہ ہے چار آئینہ بھی دنگ
دیکھو جھلا جھلی مری اے صفدران جنگ
محاورات
- باہم چشمک ہونا
- باہم چشمک کرنا