چمچا کے معنی
چمچا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ چَم + چا }
تفصیلات
iترکی زبان کے لفظ |چمچہ| سے ماخوذ اردو میں |چمچ| بنا اور الف لاحقۂ تکبیر لگانے سے |چمچا| بنا اور ایک امکان یہ بھی ہے کہ فارسی سے اردو میں آیا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٦٥ء کو "علی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["دیکھئے: چمچہ"]
چَمْچَہ چَمْچ چَمْچا
اسم
اسم آلہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : چَمْچے[چَم + چے]
- جمع : چَمْچے[چَم + چے]
- جمع غیر ندائی : چَمْچوں[چَم + چوں (و مجہول)]
چمچا کے معنی
"ایک بار مجلس میں چمچہ کو چمچ کہہ دیا، مولانا کی طبع نازک پر یہ لفظ اتنا گراں گزرا کہ فوراً محفل برخاست کی" (١٩٥٦ء، حکمائے اسلام، ١٩٥:٢)
"اگر خود اس کی جان کو چمچے نہ لگ گئے ہوتے تو شاید اور کچھ دن عیش کر لیتا" (١٩٦٢ء، معصومہ، ٢٣)
چمچا کے جملے اور مرکبات
چمچا گیری, چمچا رانی, چمچا ہر دیگی
چمچا english meaning
behaviourcharactercurrency (of corn, etc.)customladleSpoonStoogesycophant
شاعری
- مجھے تیری محفل میں موجود پا کر
غضب ہے کہ ناک اپنی چمچا سکوڑے
محاورات
- حال کا نہ قال کا (ٹکڑا) روٹی چمچا دال کا یا چمچا بھر دال کا
- مچمچاتی کھاٹ نکلنا