کب کا کے معنی
کب کا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کَب + کا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم |کب| کے بعد سنسکرت زبان سے ماخوذ حرف جار |کا| بطور حرف اضافت ملنے سے مرکب بنا۔ سب سے پہلے ١٧٩٥ء کو "دیوانِ قائم" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(تف) کس کس وقت","کس زمانے کا","کس مدت تک","کس مدت کا"]
اسم
متعلق فعل
کب کا کے معنی
١ - کس زمانے کا، کس مدت کا۔
ستم ہوا کہ ہوا ہم کو ہجر یار نصیب عوض یہ تو نے لیا ہم سے آسماں کب کا (١٨٨٦ء، دیوان سخن، ٨٢)
٢ - [ مجازا ] بہت پہلے، اس وقت سے کافی پہلے، عرصہ ہوا، زمانہ ہوا۔
"مہری تو کب کی جا چکی تھی۔" (١٩٢٤ء، اختری بیگم، ٩)
شاعری
- اب آب چشم ہی ہے ہمارا محیطِ خلق
دریا کو ہم نے کب کا کنارے رکھا لگا - تلوار لیے پھرنا تو اب اس کا سُنا میں
نزدیک مرے کب کا یہ سردُور ہوا ہے - مرہی گئے تھے ہجر ککی شب لیک بچ گئے
کیا جانے کب کا آگیا آڑالیا دیا - دل لے کے لونڈے دلی کے کب کا پچا گئے
اب ان سے کھائی پی ہوئی شے کیا وصول ہو - میں تجھ پہ تھوک کے کب کا کنارا کر جاتا
یہ کیا علاج کروں عمر بھر کی عادت ہے - یوں تم کسی طرح سے دو غیر کو چڑھاوے
اپنی تو وہ نظر سے کب کا اتر چکا ہے - بس میاں عشق تیرے پوجوں پیر
تو نے مجھ سے نکالا کب کا بیر - یار جاتا تو رہا نظروں سے کب کا لیکن
دل میں پھورتی ہے مرے درد وہ رفتار ہنوز - مرہی گئے تھے ہجر کی شب لیگ (لیکن)بچ گئے
کیا جانے کب کا آگیا آڑے دیا لیا - منظور دل کا لینا تھا جس نہ تس ادا س
سولے چکے ہو کب کا ہو ملتمس ادا سے