کشمکش کے معنی
کشمکش کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کَش + مَکَش }
تفصیلات
iفارسی زبان میں کشیدن مصدر سے مشتق صیغۂ امر |کش| کے بعد |م| بطور لاحقہ نفی اور اس کے بعد پھر |کش| لانے سے متشکل ہوا۔ جو اردو میں اپنے ماخذ معانی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٨٣٠ء کو "کلیاتِ نظیر" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بھیڑ جس میں سے نکلنا مشکل ہو","دونوں طرح مشکل","دُہری مشکل","گونگوں کا مقابلہ"]
کَشِیدن کَشْمَکَش
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
کشمکش کے معنی
"پاکستان کے بننے تک یہ کشمکش جاری رہی۔" (١٩٩١ء، قومی زبان کراچی، ستمبر ١١)
"اس کی لڑائی اور کشمکش ایک ہی ذات کے لیے وقف ہو سکتی تھی۔" (١٩٨٤ء، مقاصد و مسائل پاکستان، ١١٠)
"چند لمحوں کی کشمکش کے بعد وہ گھوما اور عدالت کے کمرے سے باہر نکل گیا۔" (١٩٨٤ء، طوبٰی، ٥١٠)
"ہر بحران ہمارے لیے خوف اور کشمکش کا ایک سیلاب سمیٹ لاتا ہے۔" (١٩٨٢ء، قومی یکجہتی میں ادب کا کردار، ٨٠)
ڈوبے لٹوں کے سائے جینوں کی چاہ میں جیسے یین کشمکش اشتباہ میں (١٩٨٢ء، جوش ملیح آبادی (مہذب اللغات))
"١٨٥٧ء سے ١٩٤٧ء تک کا زمانہ ہماری کشمکش کا زمانہ ہے۔" (١٩٦٨ء، غالب کون ہے، ٢٠٥)
کشمکش کے جملے اور مرکبات
کشمکش حیات
شاعری
- ذہن اور دل میں چھیڑ گیا کوئی سرد جنگ
اک سیلِ کشمکش کے مقابل کھڑا ہوں میں - رات میں اس کشمکش میں دیر تک سویا نہیں
کل میں جب جانے لگا تو اُس نے کیوں روکا نہیں - طوفاں کی کشمکش میں تو کچھ زندگی بھی تھی
ٹوٹے ہوئے اداس کناروں نے کیا دیا - رات میں اس کشمکش میں ایک پَل سویا نہیں
کل میں جب جانے لگا تو اُس نے کیوں روکا نہیں - ہے کشمکش شراب کو جب کیجیے نظر
جس وقت دیکھیے تو ہے ختکوں کے نیچے ہنگ - ہے کشمکش شراب کو جب کیجیے نظر
جس وقت دیکھیے تو ہے خدکوں کے نیچے بھنگ - زندگی کی کشمکش تھی باعث افسردگی
تم نے جھگڑا ہی چکایا لو چلو اچھا کیا - کشمکش دونوں میں ہے کچھ خاک بن پڑتی نہیں
میں گہ کو بار خاطر ہوں مجھے دوبھر گرہ - ہے کشمکش برد و عدم اور مری جاں
بالیں پہ ادھر موت ادھر چارہ گرآیا - ادب ہے اور یہی کشمکش تو کیا کیجے
حیا ہے اور یہی گومگو تو کیونکر ہو
محاورات
- وہ کون سی کشمکش ہے جس میں تنکا نہیں
- کشمکش سے چھوٹنا
- کشمکش میں پڑنا