کچھ کے معنی

کچھ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ کُچھ }

تفصیلات

iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے یہ بھی امکان ہے کہ پراکرت سے ماخوذ ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٨٢ء کو "دکنی ادب کی تاریخ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اندام نہانی","بہت زیادہ","تھوڑا سا","حوا کی ایک طرف","دلدلی زمین","دیوار کی طرف یا کونہ","سکھوں کا جانگھیا","وہ زمین جو پانی کے کنارے پر ہو","کثرت سے","کسی قدر"]

اسم

صفت ذاتی

کچھ کے معنی

١ - ذرا، کسی قدر، ٹک، تھوڑا، قدرے، معمولی۔

"شاید اس کتاب کا مطالعہ ان مسائل کے صحیح فہم میں کچھ مدد دے سکے۔" (١٩٤٦ء، معاشیات قومی، ب)

٢ - (تعداد یا مقدار کے لیے) بعض، چند۔

"کچھ بیٹھے ہیں، کچھ پھرتے ہیں، دو بھی کچھ کے معنوں میں آتا ہے اور قلت کا مفہوم رکھتا ہے۔" (١٩٧٣ء، جامع القواعد (حصہ نحو)، ١٠٢)

٣ - کوئی چیز، کوئی جنس۔

"اس وقت بھوکا ہوں کچھ کھلوائیے۔" (١٩٢٩ء، نوراللغات، ٧٤١:٣)

٤ - کوئی بات، نکتہ یا مصلحت، بھید۔

"جو کچھ کہا سب سُنا۔" (١٩٧٤ء، جامع القواعد (حصہ نحو) ٧٣)

٥ - (استفہام کے لیے) کیا۔

"بھائی یہاں ہاتھی کجا، یہ بھی ہندوستان ہے کچھ یاں ایک بات ہو سکتی ہے کہ خچر پر ایک جھنڈی رکھوا دیں۔" (١٨٨٠ء، فسانۂ آزاد، ٢٨١:٣)

٦ - کوئی

 وہ اخفائے راز محبت کی خاطر کبھی کچھ بہانہ کبھی کچھ بہانہ (١٩٥٤ء، آتش گل، ١٢٠)

٧ - [ مجازا ] کوئی قاتل، یا مہلک شے۔

 عجب کیا جو وہ چشم عیار و پرفن سلادے کسی دن مجھے کچھ کھلا کر (١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٩٠)

٨ - بالکل، مطلقاً، قطعاً۔

"کچھ خوشی نہیں ہوئی بلکہ وہ چڑھ سی گئی۔" (١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، علی عباس حسینی، ٢٩)

٩ - کوئی اور بات، امر دیگر، کچھ اور۔

 وہ نہ سنتا ہے مری اسکی سمجھتا ہوں نہ میں میں تو کچھ کہتا ہوں کہتا ہے مرا غم خوار کچھ (١٨٧١ء، دیوانِ تسلیم، ١٨٢)

١٠ - تھوڑا بہت، کسی قابل۔

"عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ میں بھی اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگوں۔" (١٩٤٧ء، مضامین فرصت، ١:٣)

١١ - کبھی کچھ کبھی کچھ، گھڑی میں کچھ گھڑی میں کچھ۔

 کبھی کرم ہے کبھی ستم ہے کبھی وفا ہے کبھی جفا ہے گھڑی میں کچھ وہ گھڑی میں کچھ وہ یقین ہے کیا اس کی دوستی کا (١٩٠٣ء، سفینۂ نوح، ١٧)

١٢ - برا بھلا، جلی کٹی، خلاف بات۔

 جو کہتا ہوں اس سے کہ سن شعر میرے تو کہتا ہے، کیا کچھ سنا چاہتا ہے (١٨٣١ء، دیوانِ ناسخ، ١٦١:٢)

١٣ - شے، موجود، جو کچھ۔

"مال و اسباب، جاگیر، مکانات، سب کچھ بک گیا تھا۔" (١٩٧٣ء، جام القوا، (حصہ نحو)، ٥٥)

١٤ - (برائے تحسین کلام یا تکیہ کلام کے طور پر) صرف، فقط۔

"یہ پہیلی کچھ میں نے ہی نہیں بوجھی کہ ناحق کی شیخی مارنے لگوں۔" (١٨٩٩ء، رویائے صادقہ، ١٦٣)

١٥ - تھوڑی سی، ذراسی۔

 کیا جنید اور شیخ اکبر صوفی کامل نہ تھے کیا غزالی اور بسطامی کچھ اہل دل نہ تھے (١٨٨٩ء، لیل و نہار، ٤٢)

کچھ کے مترادف

بعض, تھوڑا, کوئی, کئی, قدرے

اندک, بالکل, بعض, بغل, پہلو, تھوڑا, تھوڑاسا, چند, ذرا, ساحل, ستر, قدرے, قلیل, گالی, مطلق, کچھوا, کم, کوئی, ہرچہ

کچھ کے جملے اور مرکبات

کچھ ایسا, کچھ کچھ

شاعری

  • حیرت ہے عارفوں کو نہیں راہ معرفت
    حال اور کچھ ہے یاں اُنھوں کے حال و قال کا
  • الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
    دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
  • رہی تھی دم کی کشاکش گلے میں کچھ باقی
    سو اُس کی تیغ نے جھگڑا ہی انفصال کیا
  • شرمندہ ترے رُخ سے ہے رخسار پری کا
    چلتا نہیں کچھ آگے ترے کبک دری کا
  • کیا کچھ نہ تھا ازل میں نہ طالع جو تھے درست
    ہم کو شکستہ قصا نے بولا دیا!
  • کیا ظلم کیا بیجا مارا جیون سے اُن نے
    کچھ ٹھور بھی تھی اس کی کچھ اس کا ٹھکانا تھا
  • عجز کیا سو اس مفسد نے قدر ہماری یہ کچھ کی
    تیوری چڑھائی غصّہ کیا جب ہم نے جھک کے سلام کیا
  • خط و کتابت لکھنا اُس کو ترک کیا تھا اسی لیے
    حسرو سے ٹپکا لوہو اب جو کچھ ارقام کیا
  • عشق کیا سو دین گیا ایمان گیا اسلام گیا
    دل نے ایسا کام کیا کچھ جس سے میں ناکام گیا
  • تو یوں گالیاں غیر کو شوق سے دے
    ہمیں کچھ کہے گا تو ہوتا رہے گا

محاورات

  • (ایمان کی کہیں گے) ایمان ہے تو سب کچھ (سچ کہینگے)
  • آؤ تمہارا گھر۔ جاؤ کچھ جھگڑا نہیں
  • آپ کو کیا کچھ دور سمجھنا
  • آپ کی یہاں کچھ نہ چلے گی
  • آتا تو سب ہی بھلا۔ تھوڑا بہت کچھ۔ جاتے دو ہی بھلے دلدر اور دکھ
  • آتا جاتا (واتا) کچھ (خاک) نہیں
  • آدمی کچھ کھو کر (کے ہی) سیکھتا ہے
  • آدمی کچھ کھو کر ہی سیکھتا ہے
  • آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور چیز۔ لاکھ طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا
  • آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے

Related Words of "کچھ":