کیمیا
{ کی + مِیا }
تفصیلات
iعربی زبان سے مشق اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٦٤ء، کو" دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتاہے۔
[""]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
کیمیا کے معنی
جلی امیدوں کی راکھ مٹھی میں بند یہ کب سے سوچتی ہے کہ اس کی تاثیر کیاہے (١٩٩٢ء، افکار(قمر ہاشمی)، کراچی اپریل، ٤١)
جب ہوا جل کر جگر سب کیمیا نقد خالص عشق کا حاصل ہوا (١٧٣٩ء، کلیات سراج، ١٥٢)
"انکو اخیر عمر میں کیمیا کا شوق ہو گیا تھا" (١٩٩٠ء، نگار، کراچی، اگست، ٤٣)
کیمیا عاشق کے حق میں ہے نگاہ گل رخاں گل رخاں سوں جگ میں پایا ہوں ولی یہ کیمیا (١٧٠٧ء، کلیات ولی، ٩)
"فلسفہ، ریاضی، کیمیا اور طبیعیات جیسے علوم . علوم معقول میں شمار ہوئے" (١٩٨٥ء، کشاف تنقیدی اصطلاحات، ١٢٦)
"آج اس کی تصنیفات اس طرح مقود ہیں کہ کہیں دو چار ورق ہاتھ آجاتے ہیں تو شائقین فن سمجھتے ہیں کہ کیمیا ہات آ گئی"
کیا کیمیا گگن بھر تری زحل دے گیاےگیا مشتری (١٥٦٤ء، دیوان حسن شوقی، ٧٥)
"اس نے عربوں کی کیمیا کو نہیں مٹایا بلکہ فروغ دیا" (١٩٩٢ء، افکار، کراچی، جولائی، ٢٠)
"حیوانات میں کئ رنگ داری مادہ اور رنگ پیدا کرنے والے کیمیے . ملتے ہیں" (١٩٦٧ء، بنیادی حشریات، ٢٣)
تم اگر چشم لطف و اکردو مس کو چاہو تو کیمیا کر دو (١٩١٧ء، مجموعۂ بے نظیر ، ٢٣)
بو علی ہے نبض دانی میں بتاں کی آبرو اوسکا اس فن میں جو نسخا ہے سوہے اک کیمیا (١٧١٨ء، دیوان آبرو، ١)
مترادف
ماہیت, خاصیت
مرکبات
کیمیا دان