اتنی کے معنی
اتنی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ اِت + نی }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم صفت |اتنا| کی تانیث ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٨٤ء کو "عشق نامہ" میں مومن کے ہاں, m["رک: اتنا جس کی یہ تانیث ہے"]
اسم
صفت ذاتی ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جنسِ مخالف : اِتْنا[اِت + نا]
اتنی کے معنی
"کمی ہے تو اتنی کہ یہاں کے عوام بے علم اور کمزور ہیں۔" (١٩٢٨ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١٣: ١٠، ٤)
شاعری
- یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ دل سے بھلایا نہ جائے گا - اتنی گزری جو ترے ہجر میں سو اس کے سبب
صبر مرحوم عجب مونس تنہائی تھا - یاد اُس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھُلایا نہ جائے گا - بوسہ لبوں کا مانگتے ہی مُنہ بگڑ گیا
کیا اتنی میری بات کا تم کو بُرا لگا - کیا ہے گر بدنامی و حالت تباہی بھی نہ ہو
عشق کیسا جس میں اتنی روسیاہی بھی نہ ہو - ظالم ہو میری جان پہ ناآشنا نہ ہو
بے رحمی اتنی عیب نہیں بے وفا نہ ہو - اب تنگ ہوں بہت میں مت اور دشمنی کر
لاگو ہو میرے جی کا اتنی ہی دوستی کر - حصول کام کا دل خواہ یاں ہوا بھی ہے
سماجت اتنی بھی سب سے کوئی خدا بھی ہے - اتنی جبین رگڑی کی سنگ آئینہ ہو
آنے لگا ہے مُنہ نظر اس آستاں کے بیچ - شوق تھا جو یار کے کوچے ہمیں لایا تھا میر
پانوں میں طاقت کہاں اتنی کہ اب گھر جایئے
محاورات
- اتنی پروا نہیں جتنی ارد پر سفیدی
- اتنی تلواریں مارونگا کہ ٹکڑے اڑا دونگا
- اتنی تو رائی ہوگی جتنی رائتے میں پڑے
- اتنی تورائی ہوگی جتنی رائتے میں پڑے
- اتنی سی بات
- اتنی سی جان سوا گز (گز بھر) کی زبان
- اتنی سی جان سوا گز کی زبان / زبان
- اتنی سی جان گز بھر کی زبان
- اتنی سی فتنی
- اتنی صورت نظر نہ آئیگی