بحر کے معنی
بحر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بَحْر }
تفصیلات
iعرب یزبان میں ثلاثی مجرد کے باب |فتح یفتح| سے مصدر ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٦٤ء میں |حسن شوقی| کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بڑا دریا","بڑا سمندر","تیز گھوڑا","جغرافیہ دانوں نے سطحِ آب کے پانچ بڑے حصّے کئے ہیں : بحر اوقیانوس ، بحرالکاہل ، بحر ہند ، بحر منجمد شمالی ، بحر منجمد جنوبی ۔ ان کے حالات ان کے اصل ناموں کے نیچے دیکھو","جہازوں کا بیڑا","چند کلمات موزوں جِن پر اشعار کا وزن ٹھیک کرتے ہیں","شعر کا وزن","علم عروض میں نظم کے انیسں وزن ہیں۔ ہر ایک کو بحر کہتے ہیں ان کے نام یہ ہیں۔ ١۔ رجز ٢۔ ہزج ٣۔ کامل ٤۔ رمل ٥۔ متقارب ٦۔ متدارک ٧۔ خفیف ٨۔ سریع ٩۔ محبتث ١٠۔ مضارع ١١۔ منسرج ١٢۔ بسیط ١٣۔ وافر ١٤۔ طویل ١٥۔ مدید ١٦۔ مشاکل ١٧۔ مقتضب ١٨۔ قریب ١٩۔ جدید","فیاض آدمی","کسی چیز کی زیادتی ظاہر کرنے کے لئے ہوتا ہے"]
بحر بَحْر
اسم
اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : بَحُور[بَحُور]
- جمع غیر ندائی : بَحْروں[بَح + روں (واؤ مجہول)]
بحر کے معنی
تحریر اس کی بحر فصاحت کی موج تھی تقریر اس کی چشمۂ آب ز لال تھا (١٩٣٧ء، نغمۂ فردوس، ٨٨:٢)
"اسکندر کے پاس جہازوں کی بحر تھی جس پر وہ اپنی کل ما یحتاج کو لے جا سکتا تھا۔" (١٩٠٧ء، |مخزن| اگست، ٨)
"کتاب نظم میں ہے زبان فارسی، مثنوی مولانا روم کی بحر میں ہے۔" (١٩٣٠ء، مکاتیب اقبال، ٣٧٧:٢)
بحر کے مترادف
ساگر
دریا, ساگر, سمندر, قلزم, محیط, یم
بحر کے جملے اور مرکبات
بحر و بر, بحرالکاہل, بحر منسرح, بحر وافر, بحر ابیض, بحراحمر, بحر اخضر, بحر اسود, بحراعظم, بحرالازرق, بحر قلزم, بحرعمان, بحر آشام, بحر آہن, بحربیکراں, بحر متقارب, بحر مجتث, بحر مدید, بحر خفیف, بحر رباعی, بحر رجز, بحر رمل, بحر سریع, بحرطویل, بحر خزر, بحر ذخار, بحر روم, بحر زرد, بحر مواج, بحرہند, بحر اصول, بحر بسیط, بحر جدید, بحر احمر, بحر اعظم, بحر اوقیانوس, بحر تقارب, بحر طویل, بحر کامل, بحر مقتضب
بحر english meaning
seagulfbay; metreverse; flowrhythma portera woman who bears burdensbecoming pregnantocean
شاعری
- بحر کم ظرف ہے بسان حباب
کاسہ لیس اب ہوا ہے تو جس کا - نمود کرکے وہیں بحر غم میں بیٹھ گیا
کہے تو میر بھی اک بُلبلا تھا پانی کا - کون سے یہ بحر خوبی کی پریشاں زلف ہے
آتی ہے آنکھوں میں میرے موج دریا آشنا - ہو کے قید بحر سے‘ آزاد قطرے آب کے
گر کے بادل سے صدف کا بھید بن جاتے ہیں کیوں - یہ کیا کہ سطح بحر سے ہوکر پلٹ گئے
میری تلاش تھی تو تہہِ آب دیکھتے - بادل… میں اور تم
بادل کے اور بحر کے رشتے عجیب ہیں!
کالی گھٹا کے دوش پہ برفوں کا رخت ہے
جتنے زمیں پہ بہتے ہیں دریا‘ سبھی کا رُخ
اِک بحر بے کنار کی منزل کی سمت ہے
خوابوں میں ایک بھیگی ہُوئی خُوش دِلی کے ساتھ
ملتی ہے آشنا سے کوئی اجنبی سی موج
بادل بھنور کے ہاتھ سے لیتے ہیں اپنا رزق
پھر اس کو بانٹتے ہیں عجب بے رُخی کے ساتھ!
جنگل میں‘ صحن باغ میں‘ شہروں میں‘ دشت میں
چشموں میں‘ آبشار میں‘ جھیلوں کے طشت میں
گاہے یہ اوس بن کے سنورتے ہیں برگ برگ
گاہے کسی کی آنکھ میں بھرتے ہیں اس طرح
آنسو کی ایک بُوند میں دجلہ دکھائی دے
اور دُوسرے ہی پَل میں جو دیکھو تو دُور تک
ریگ روانِ درد کا صحرا دکھائی دے!
بادل کے اور بحر کے جتنے ہیں سلسلے
مُجھ سے بھی تیری آنکھ کے رشتے‘ وہی تو ہیں!! - شمس و قمر کے جادو گھر میں، بحر و بر کی حیرت میں
یوں لگتا ہے جیسے اب تک ’’کُن‘‘ کا کلمہ جاری ہے - ساحل پہ تھے تو ریت کا جادو تھا ہر طرف
کشتی چلی تو بحر کی دہشت عجیب تھی - کندہ دنداں نما لازمنہیں اے بحر حسن
نئیں تو اب جاتی رہے گی آن میں موتی کی آب - تحریر اس کی بحر فصاحت کی موج تھی
تقریر اس کی چشمہ آب زلال تھا
محاورات
- بحر آہن میں غوطہ لگانا
- بحر تحیر یا حیرت میں غرق ہونا
- بحر فنا میں غرق ہونا یا ڈوبنا
- بحر فنا کا کنارہ نظر آنا
- بحر ندامت میں ڈوبنا یا غرق ہونا
- چہ باک از موج بحر آنرا کہ باشد نوح کشتیباں
- غرق بحر (دریائے) حسن ہونا
- غرق بحر فکر ہونا
- غرق بحر(دریائے) تعجب (حیرت) ہونا
- ٹکلی سیندور گیل تو کھانے میں بھی بحر پرب