بود کے معنی
بود کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بُود }
تفصیلات
iفارسی زبان میں مصدر|بودن| سے مشتق صیغۂ ماضی مطلق ہے اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے ١٦٣٥ء میں "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(مضارع) بُودن سے"]
بُودَن بُود
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
بود کے معنی
ہے کشمکش بودو عدم اور مری جاں بالیں پہ ادھر موت ادھر چارہ گر آیا (١٩٤٠ء، بخود موہانی، کلیات، ٣)
"ہمارے مشاہدۂ جمال کی فرشتۂ آسمانی کی کیا قدرت کہ جو تاب لا سکے دیکھنا کیسا اور بشر کی تو بھلا کیا بودہے۔" (١٨٩٠ء بوستان خیال، ٨٢٦:٦)
وہ واحد کہ کثرت میں موجود ہے وہ یکتا کہ ہر بود میں بود ہے (١٨٧٣ء، مناجات ہندی،١)
بود english meaning
beingexistence; Wednesdaya mendicant|s habitan old garmentexistenceto hail
شاعری
- ایک دم تھی نمود بود اپنی
یا سفیدی کی یا اخیر ہوئے - آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں
اتنا بھی بود و باش کو سادا نہیں کیا - جہاں عدم ہے کسی کا وہاں وجود نہیں
تعینات کثیرہ کی ہست و بود نہیں - بیتی سو لکھن نار کوں دیکھیا نہیں کوئی خواب میں
جس کے نین پر صاف تے خجلت بود در دانہ را - جائے بے خدشہ غیرے کہ نہ تھا غیر نمود
خط باطل سے لکھا دیکھا ہے واں صفحہ بود - ریاضت تابکے خلع بدن میں عامل کامل
یو ہیں نا بود ہو جائے نہ اکدن ہستی فانی - حبیب خدا خواجہ کائنات
ہوئے اوس نے نا بود لات و منات - مسکن پذیر آج سے دل میں نہیں ہے غم
روز ازل سے اس کی یہیں بود وباش ہے - خلد بریں اس کی ہے واں بود وباش
یاں کسی دل بیچ جو گھر کر گیا - عالم میں کوئی چیز نہ تھی اس کے ماسوا
اطلاق بود وہست سے برتر تمام جا
محاورات
- (نیست و) نابود کرنا
- آدمی ہو (کہ) یا بودم بے دال (بے دال کے بودم)
- امیر کا پاد بھی خوشبودار ہوتا ہے
- بازاری چیز بودی ہوتی ہے
- بخونریزی بود چالاک شمشیر یکہ خم دارد
- بو گئی بودار گئی رہی کھال کی کھال
- بو گئی بودار گئی‘ رہی کھال کی کھال
- بود نقرہ محتاج پالودگی
- بود ہم پیشہ باہم پیشہ دشمن
- بودم بے دال ہونا