جدل کے معنی
جدل کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ جَدَل }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب کا مصدر ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٤٩ء میں "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["پکّا کرنا"]
جدل جَدَل
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع استثنائی : جِدال[جِدال]
جدل کے معنی
"قریب تھا کہ جنگ و جدل برپا ہو جائے لیکن آپ کے چند فقروں نے آگ پر پانی ڈال دیا۔" (١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ٢٤٦:٢)
"صحیح یہ ہے کہ یہ جدل ہے جس میں مسلمات خصم سے استدلال کیا جاتا ہے۔" (١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ٩٥:٣)
"مشہور مقدمہ بعض اوقات کاذب ہوتا ہے لیکن جدل میں اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔" (١٩٥٣ء، حکمائے اسلام، ١٢٨:١)
جدل english meaning
Contentiondisputationaltercationfighting; fightbattleencounterfighting
شاعری
- تو کیا ہے اور تیری جدل و قتال کیا
ٹھہرے ہمارے آگے کسی کی مجال کیا - کیا شکر اس کا آہنگ غزل میں
کہے سوں کیا کیا جنگ و جدل میں - تج عاشقاں میں ہوتا جنگ و جدل سو سب دن
ہے شرع احمدی تج انصاف کر خدارا - رد کردہ جو ہیں ان سے بھلا دو بدل کیا
دیکھی نہیں شیروں کی بھلا جنگ و جدل کیا - تج عاشقاں میں ہوتا جنگ و جدل سو سب دن
ہے شرع احمدی تج انصاف کر خدارا - جوشش کبھی جو نار خصومت ہو شعلہ زن
اپنے ہی نفس شوم سے جنگ و جدل کروں - دونوں کھوٹے ہیں بہم رد و بدل ہوتی ہے
سیر ہے مرحب و مرکب میں جدل ہوتی ہے