حریف کے معنی
حریف کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ حَرِیف }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٦١١ء میں قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(حَرَفَ ۔ کسی کی طرف مڑنا)","خوش مزاج","زندہ دل","فریب کار","ہم پایہ","ہم پیشہ","ہم چشم","ہم رتبہ","ہم منصب","ہم نبرد"]
حرف حَرِیف
اسم
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : حَرِیفَین[حَری + فَین]
- جمع استثنائی : حَرِیفِین[حَری + فِین]
- جمع غیر ندائی : حَرِیفوں[حَری + فوں (واؤ مجہول)]
حریف کے معنی
"ایک مرنجان مرنج قلمکار کو مشتعل کر کے جناب صدر کے لیے ایک اور حریف پیدا کر دیا۔" (١٩٦٧ء، بزم آرائیاں، ١١٢)
سراپا درد ہوں ابرار لیکن حریف شوق حرف غم نہیں ہے (١٩٧٥ء، صدرنگ، ١٢٢)
کج فہمیوں سے خلق کی دیکھا کہ کیا ہوا منصور کو حریف نہ ہونا تھا راز کا (١٩٢٨ء، آخری شمع، (عبدالعزیز)، ٥٧)
حریف کے مترادف
دشمن, عدو, متقابل
بداندیش, بدخواہ, بدسگال, بَیری, چالاک, خصم, دشمن, رقیب, شوخ, عدو, عیار, فریبی, گستاخ, مخاصم, مخالف, معاند, مکار, ہشیار, ہمتا, ہمسر
حریف english meaning
a partnera rivalclaverenemyinimicalmaliciousMen of the same proffesionopponentstenographer
شاعری
- مئے ولا سے حریف سرور ہیں آنکھیں
مراقبے کا ساعالم ہے چور ہیں آنکھیں - پرے یہاں سے رکھ اپنی شمیم تو شبنم
نہیں حریف اس آسیب کا دماغ مرا - میخوری میں کیوں ہے یہ تنہا خوری
اے حریف بادہ پیما میں بھی ہوں - کج فہمیوں سے خلق کی دیکھا کہ کیا ہوا
منصور کو حریف نہ ہونا تھا راز کا - حریف اس رہ نوردی کو مگر بازیچہ سمجھے ہیں
ہزاروں منزلیں چلنا ہے اپنے سے سفر کرنا - شفق میں برق چمکتی ہے وقت خندیدن
حریف شام و سحر ہیں حروف لا و نعم - جھوکے میں جھوکا مار کر دل ہاشمی کا لے کے گئی
معلوم کسے نہ ہوئے تو یک پل کی وصلت سوں حریف - منگانے تھے بطخ کی چربی ظریف
سورہچربیاب پھینک دیں ہیں حریف - منگاتے تھے بطخ کی چربی ظریف
سو وہ چربی پھینک دیں ہیں حریف - مر گیا صدمہ یک جنبش لب سے غالب
ناتوانی سے، حریف دم عیسیٰ نہ ہوا
محاورات
- حریف باختہ باخود ہمیشہ درجنگ است
- حریف را حریف مے شناسد