دشنام کے معنی
دشنام کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دُش + نام }
تفصیلات
iفارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب پہلے ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔, m["الزام تراشی","بد زبانی","بد کلامی","سب دشتم","عیب جوئی","عیب دھرنا","گالی گفتار","گالی گلوچ","گالی گلوچ (دینا۔ سننا کے ساتھ)"]
اسم
اسم مجرد ( مذکر، مؤنث - واحد )
دشنام کے معنی
اب تو اس زہر کی اک بوند بھی مجھ پر ہے حرام دیکھو اب قرض کی مے کا نہیں حاصل دشنام (١٩٨٤ء، سمندر، ١٩٧)
دشنام کے مترادف
پھکڑ, گالی, عار
گالی
دشنام کے جملے اور مرکبات
دشنام آمیز, دشنام طرازی
دشنام english meaning
Ill-nameabuseinvective.swear word(Plural) مفادات mafadat|interestinvectiveswear uthed
شاعری
- دشنام پاسباں کی دوچار کھاکے آئے
آخر ہم اس گلی سے خفت اٹھا کے آئے - خضر باتیں ہیں کہ ہے چشمہ حیواں جاں بخش
ہے یہی خاصیت اس کے لب دشنام میں خاص - ولی تیرے لباں سوں اے تنک طبع
چلا ہے لذت دشنام لے کر - نہ تھی توفیق اگر بوسہ کی تو اتنا ہی کہہ دیتے
جو آیا ہے تو خالی مت بھرے دشنام لیتا جا - دیا شاہ دشنام ناپاک نے
تنگ آیا ہوں اس خرس ناپاک نے - بے ادب بوسے نے میرے اس قدر جھومر کیا
لعل لب کو تیرے کچھ فرصت نہ تھی دشنام کی - زبان کی کر کے مقراض اور بنا دشنام کا کاغذ
ہمارے حق میں کیا کیا آپ نے کترے ہےں گل بوٹے - دل کو خوش آئیں یہ دلبر کی ادائیں پھولیاں
غیر کو دشنام دے کستا ہے ہم پر بولیاں - کیا بے نقط سناتا ہے تیرا دہان تنگ
گویا یہ میم کلمہ دشنام ہوگیا - یا کہ بوسہ دے مجھے وہ شوخ یا دشنام دے
ہو شکر یا سم فغاں یہ گھولوا انت گھولنا