زبان کے معنی
زبان کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ زُبان }
تفصیلات
iاصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٥٧ء کو "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اندازِ بیان","بات کرنے کا ڈھنگ","بول چال","بولی جس سے انسان اپنے خیالات ظاہر کرتا ہے","بولی جس کے ذریعے انسان تکلّم یا تحریر کی صورت میں اپنے خیالات اور جذبات ظاہر کرتا ہے","بیان کرنے کا انداز","تیغ و خنجر سے استعارہ کرتے ہیں","دیکھیئے: زباں دینا","گوشت کا سُرخ ٹکڑا جو منہ میں ہوتا ہے اس میں قوت ذائقہ ہوتی ہے اور انسان اس کے ذریعہ بولتا ہے","مُنہ کے اندر کا وہ عضو جس میں قوّتِ ذائقہ ہوتی ہے اور جو نُطق کا آلہ ہے"]
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : زُبانیں[زُبا + نیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : زُبانوں[زُبا + نوں (واؤ مجہول)]
زبان کے معنی
"زبان تھی کہ الامان ایک منہ بیسیوں کو سنے اور ایک سانس میں سینکڑوں فضیتحیاں" (١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٢٤)
"قرآن کریم کی زبان عربی تھی" (١٩٨٤ء، ترجمہ: روایت اور فن، ١٩)
اچھا ہو دل کے دام جو دل ہی سے پوچھ لو میری زباں رہے، نہ تمہاری زباں رہے (١٩٣٦ء، شعاع میر، ناراین پرشاد ورما، ١٥٣)
باتیں رہیں یہ اور کسی سے کہ اب ہمیں گالی تری پسند نہ تیری زبان پسند (١٨٨٥ء، دیوان سخن، ١٠١)
لو کاٹتا ہے غیظ سے اپنی زبان قلم یہ وہ ہے جس پر فوج خدا کا رہا علم (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٢٢٤:١)
ابرو کی کھنچیں ہوئیں کمانیں پلکیں تھیں کہ تیر کی زبانیں (١٨٨١ء، مثنوی تیرنگ خیال، ١٦٦)
اُوسی آگ میں کا ہوں میں یک زبان تو کرتا ہوں اس دھات شعلہ فشاں (١٦٥٧ء، گلشن عشق، ٣٨)
زبان کے جملے اور مرکبات
زبان درازی, زبان مبارک, زبان زد عام, زبان خلق, زبان پر, زبان بندی, زبان آرائی, زبان آور, زبان آوری, زبان بریدہ, زبان بستگی, زبان بستہ, زبان چرب, زبان چربی, زبان حال, زبان خامہ, زبان دان, زبان دانی, زبان دبا کر, زبان دراز, زبان دریدہ, زبان زد, زبان زوری, زبان شمع
زبان english meaning
the tongue; tonguespeechlanguagedialectbeheadchargeslay
شاعری
- لکنت تری زبان کی ہے مسحر جس سے شوخ
اک حرف نیم گفتہ نے دل پر اثر کیا - کیا کیا زبان میر نے کھینچے ہیں عشق میں
دل ہاتھ سے دیا ہے جدا سر جُدا دیا - رہ جاؤں چپ نہ کیونکہ بُرا جی میں مان کر
آؤ بھلا کبھو تو سوجاؤ زبان کر!! - ابھی اِک دم میں زبان چلنے سے رہ جاتی ہے
درد دل کیوں نہیں کرتا ہے تو اظہار ہنوز - گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے - نوبت جو ہم سے گاہے آتی ہے گفتگو کی
منہ میں زباں نہیں ہے اُس بد زبان کی گوئی - اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کُھلے گی زبان جب کی بات! - اب تو چُپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کھلے گی زبان جب کی بات! - قدغن تھی زبان پر سرِ بزم
جمشید زبان کاٹ لایا - جواب سوچ کے دل میں وہ مسکراتے ہیں
ابھی زبان پہ میری سوال بھی تو نہ تھا
محاورات
- آب کوثر سے زبان دھو ڈالنا
- آب کوثر سے زبان دھوئی ہونا
- آپ کی زبان نہر کوثر سے دھلی ہوئی ہے
- آج زبان کھلی ہے کل بند
- اتنی سی جان سوا گز (گز بھر) کی زبان
- اتنی سی جان سوا گز کی زبان / زبان
- اتنی سی جان گز بھر کی زبان
- اس کے منہ میں زبان نہیں
- افسانہ بر زبان ہونا
- اگلی باتوں کو زبان پر لانا