دعوی کے معنی
دعوی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دَع + وا (یائے بہ بدل الف) }
تفصیلات
iعربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مجرد کے باب سے اسم مصدر ہے اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦١١ء کو قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔
["دعو "," دَعْویٰ"]
اسم
اسم مجرد ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : دَعْوے[دَع + وے]
- جمع غیر ندائی : دَعْوں[دَع + ووں (و مجہول)]
دعوی کے معنی
"مشکلات پر قابو پا کر انسان عناصر فطرت اور مخالف قوتوں کے سامنے شمعیں جلانے کا دعوٰی کر سکتا ہے۔" (١٩٨٣ء، حصارانا، ٢٢)
"اگر خدا تو فیق دے میری رقم مجھے دے دینا، ورنہ خیر، میرا تم سے کوئی دعویٰ نہیں۔" (١٩٤٦ء، شیرانی، مقالات، ٥٣)
"دلی آکر انہوں نے اپنے ورثے کا دعویٰ کر دیا۔" (١٩٨٣ء، نایاب ہیں ہم، ٥٦)
"میرا تم پر کچھ زور اور دعویٰ ہے یا نہیں۔" (١٩١١ء، قصۂ مہر افروز، ٣٨)
"اگر تجھے بھی دعویٰ اپنی سپہ گری پر ہے تو جو تجھ سے ہو سکے کمی نہ کرنا۔" (١٩٠٤ء، آفتاب شجاعت، ٢٠٩:٤)
دعویٰ کیا ہے ان کی رخ بے مثال کا کہ دو قمر سے داغ تو دھو ڈالے گال کا (١٨٧٣ء، کلیات قدر، ١٣٤)
"اقلیدس میں سطر ڈیڑھ سطر کا دعویٰ ہوتا ہے اور اس کے ثبوت ورق کے ورق۔" (١٨٩٩ء، رویائے صادقہ، ١١٩)
"پربھا کر حد اوسط کے مفالطات کے ساتھ صغریٰ (پکشا بھاس)، دعویٰ (پرتگیا بھاس) اول نظیر (درشٹانت آبھاس) کے مفالطات الگ الگ شمار کراتا ہے۔" (١٩٤٥ء، تاریخ ہندی فلسفہ، ٥٦٩:١)
دعوی کے جملے اور مرکبات
دعویء خدائی, دعویء نبوت, دعویء بے جا, دعویء باطل, دعویء جنگ, دعویء عین, دعویء مجہول, دغا شعار
دعوی english meaning
["Pretension","claim; demand","suit; plaint","action at law","law suit; charge","accusation; contention","assertion"]