دہشت کے معنی

دہشت کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ دَہ + شَت }

تفصیلات

iفارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا اردو میں سب سے پہلے ١٧٣٢ء کو "کربل کتھا" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["حیران ہونا"]

اسم

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )

دہشت کے معنی

١ - ڈر، خوف، ہیبت، ہول۔

"وہ دہشت سے پیچھے ہٹ گیا۔" (١٩٨٧ء، حصار، ١٢٢)

دہشت کے مترادف

آسیب, خوف, ڈر, ہیبت

باک, بھے, بیم, حرس, خطر, خطرہ, خوف, دَہشَ, ڈر, ہول, ہیبت

دہشت کے جملے اور مرکبات

دہشت انگیز, دہشت ناک, دہشت گردی, دہشت گرد, دہشت زدہ, دہشت پسندانہ, دہشت پسند, دہشت زدگی

دہشت english meaning

consternationfearfrightterrordismaydreadawealarmfear ; terror; dreadhorrormenacescarethreat

شاعری

  • حُسن کی دہشت عجب تھی وصل کی شب میں منیر
    ہاتھ جیسے انتہائے شوق سے شل ہوگیا
  • ایک عجیب خیال

    کسی پرواز کے دوران اگر
    اِک نظر ڈالیں جو
    کھڑکی سے اُدھر
    دُور‘ تاحّدِ نگہ
    ایک بے کیف سی یکسانی میں ڈوبے منظر
    محوِ افسوس نظر آتے ہیں
    کسی انجان سے نشے میں بھٹکتے بادل
    اور پھر اُن کے تلے
    بحر و بر‘ کوہ و بیابان و دَمن
    جیسے مدہوش نظر آتے ہیں
    شہر خاموش نظر آتے ہیں
    شہر خاموش نطر آتے ہیں لیکن ان میں
    سینکڑوں سڑکیں ہزاروں ہی گلی کُوچے ہیں
    اور مکاں… ایک دُوجے سے جُڑے
    ایسے محتاط کھڑے ہیں جیسے
    ہاتھ چھُوٹا تو ابھی‘
    گرکے ٹوٹیں گے‘ بکھر جائیں گے
    اِس قدر دُور سے کُچھ کہنا ذرا مشکل ہے
    اِن مکانوں میں‘ گلی کُوچوں‘ گُزر گاہوں میں
    یہ جو کُچھ کیڑے مکوڑے سے نظر آتے ہیں
    کہیں اِنساں تو نہیں!
    وہی انساں… جو تکبّر کے صنم خانے میں
    ناخُدا اور خُدا ‘ آپ ہی بن جاتا ہے
    پاؤں اِس طرح سرفرشِ زمیں رکھتا ہے
    وُہی خالق ہے ہر اک شے کا‘ وُہی داتا ہے
    اِس سے اب کون کہے!
    اے سرِخاکِ فنا رینگنے والے کیڑے!
    یہ جو مَستی ہے تجھے ہستی کی
    اپنی دہشت سے بھری بستی کی
    اس بلندی سے کبھی آن کے دیکھے تو کھُلے
    کیسی حالت ہے تری پستی کی!
    اور پھر اُس کی طرف دیکھ کہ جو
    ہے زمانوں کا‘ جہانوں کا خُدا
    خالقِ اَرض و سما‘ حّئی و صمد
    جس کے دروازے پہ رہتے ہیں کھڑے
    مثلِ دربان‘ اَزل اور اَبد
    جس کی رفعت کا ٹھکانہ ہے نہ حدّ
    اور پھر سوچ اگر
    وہ کبھی دیکھے تجھے!!!
  • ہم ایک دُوجے سے ملتے تو کس طرح ملتے!

    زمیں پہ آگ تھی تارے لہُو میں لتھڑے تھے
    ہَوا کے ہاتھ میں خنجر تھا اور پُھولوں کی
    پھٹی پھٹی ہُوئی آنکھوں میں ایک دہشت تھی
    ارادے ٹوٹتے جاتے تھے اور اُمیدیں
    حصارِ دشت میں ‘ بکھری تھیں اِس طرح‘ جیسے
    نشان‘ بھٹکے ہُوئے قافلوں کے رہ جائیں

    ہمارے پاس سے لمحے گَزرتے جاتے تھے
    کبھی یقین کی صورت ‘ کبھی گُماں کی طرح
    اُبھرتا‘ ڈوبتا جاتا تھا وسوسوں میں دِل
    ہوائے تند میں کشتی کے بادباں کی طرح
    عجیب خوف کا منظر ہمارے دھیان میں تھا
    سروں پہ دُھوپ تھی اور مہر سائبان میں تھا

    چراغ بُجھتے تھے لیکن دُھواں نہ دیتے تھے
    نہیں تھی رات مگر رَت جگا مکان میں تھا!

    حروف بھیگے ہُوئے کاغذوں پہ پھیلے تھے
    تھا اپنا ذکر‘ مگر اجنبی زبان میں تھا

    نظر پہ دُھند کا پہرا تھا اور آئینہ
    کسی کے عکسِ فسوں ساز کے گُمان میں تھا

    ہم ایک راہ پہ چلتے تو کس طرح چلتے!
    تری زمیں کسی اور ہی مدار میں تھی
    مِرا ستارا کسی اور آسمان میں تھا
    ہم ایک دُوجے سے ملتے تو کس طرح ملتے!
    سَمے کا تیز سمندر جو درمیان میں تھا
  • سائے لرزتے رہتے ہیں شہروں کی گلیوں میں
    رہتے تھے انسان جہاں اب دہشت رہتی ہے
  • بے مقصد سب لوگ مسلسل بولتے رہتے ہیں
    شہر میں دیکھو سناٹے کی دہشت کتنی ہے!
  • ساحل پہ تھے تو ریت کا جادو تھا ہر طرف
    کشتی چلی تو بحر کی دہشت عجیب تھی
  • سنّاٹے کی دہشت بڑھتی جاتی ہے
    بستی سے سیلاب گزرنے والا ہے
  • دہشت یہ تھی کہ شہر صفوں پر نہ آپرے
    گھوڑے بھڑک کے دوسرے گھوڑوں پہ جاپڑے
  • نہ دہشت کرو دل میں مت خوف کھاو
    بھروسے کو باندھو ہری گوں کو گاو
  • محو رجز تھے جب تو لرزتا تھا بن تمام
    آگے بڑھے تو ہٹ گئی دہشت سے فوج شام

محاورات

  • دہشت دینا
  • دہشت کھانا
  • ڈر نہ دہشت اتار پھری خشتک

Related Words of "دہشت":